سب جانتے ہیں علم سے ہے زندگی کی روح
سب جانتے ہیں علم سے ہے زندگی کی روح
بے علم ہے اگر تو وہ انساں ہے نا تمام
بے علم و بے ہنر ہے جو دنیا میں کوئی قوم
نیچر کا اقتضا ہے رہے بن کے وہ غلام
تعلیم اگر نہیں ہے زمانہ کے حسب و حال
پھر کیا امید دولت و آرام و احترام
سید کے دل میں نقش ہو اس خیال کا
ڈالی بنائے مدرسہ لے کر خدا کا نام
صدمے اٹھائے رنج سہے گالیاں سنیں
لیکن نہ چھوڑا قوم کے خادم نے یہ کام
دکھلا دیا زمانہ کو زور دل و دماغ
بتلا دیا وہ کرتے ہیں کرنے والے کام
نیت جو تھی بخیر تو برکت خدا نے دی
کالج ہوا درست بہ صد شان و احتشام
سرمائے میں کمی تھی سہارا کوئی نہ تھا
سید کا دل تھا درپئے تکمیل انتظام
آخر اٹھا سفر کو وہ مرد خستہ پئے
احباب چند ساتھ تھے ذی علم و خوش کلام
قسمت کہ رہبری سے ملی منزل مراد
فرماں روائے ملک دکن کو کیا سلام
حالت دکھائی اور ضرورت بیان کی
خوبی ث التماس کیا قوم کا پیام
رحم آ گیا حضور کو حالت پہ قوم کی
پھر کیا تھا موجزن ہوا دریا فیض عام
ماہانہ دو ہزار کیا اک ہزار ث
امید ث زیادہ عطا تھی یہ لا کلام
اکبرؔ کی ی دعا ہے خدا کی جناب میں
تا حشر اس رئیس و ریاست کو ہو قیام
کیا وقت پر ہوئی ہے کہ بے احتجاج فکر
تاریک اپنی آپ ہے فیاضی نظام