ساز الفت ہے مرے ساز جگر ہونے تک
ساز الفت ہے مرے ساز جگر ہونے تک
حسن دل کش ہے مرے ذوق نظر ہونے تک
عزم انساں نے ستاروں پہ کمندیں ڈالیں
منزلیں دور ہیں سرگرم سفر ہونے تک
بارہا ننھا سا دل خون ہوا زیر فلک
غنچے پر گزری ہے کیا کیا گل تر ہونے تک
رفعتیں کون سی ہے چھو نہ سکے جن کو خیال
حد پرواز ہے تخئیل کے پر ہونے تک
زندگی تلخ حقیقت ہے کہ ایک خواب حسیں
کون سمجھا ہے اسے عمر بسر ہونے تک
کر گئی تجھ کو پریشاں مری آشفتہ سری
یہ یقیں تھا نہ تری آنکھ کے تر ہونے تک
ہم سر شام جلاتے ہیں تصور کے چراغ
کون دیکھے گا تری راہ سحر ہونے تک
تیرے وعدے کبھی شرمندہ ایفا نہ ہوئے
ورنہ جیتا ترے آنے کی خبر ہونے تک
وعدہ بے کیف ہے بے رنگ ہے گلزار حبیبؔ
دل ہے سونا سا تری لطف نظر ہونے تک