ساز مستقبل

کتنے اصنام نا تراشیدہ
پتھروں ہی میں کسمساتے ہیں
کتنے ہی ناشگفتہ لالہ و گل
ذہن بلبل کو گدگداتے ہیں
کتنے ہی جلوہ ہائے نادیدہ
ابھی پردے میں مسکراتے ہیں
ناسرائیدہ کتنے ہی نغمے
دل کے تاروں سے لپٹے جاتے ہیں
کس نے چھیڑا ہے ساز مستقبل
آج لمحات گنگناتے ہیں
کس نے چھیڑا ہے ساز مستقبل
آج لمحات گنگناتے ہیں