سارنگی اور طبلہ

دنیا بھر کے بے فکروں نے کل بزم سرود سجائی تھی
کیا دل کو مسلتا تھا طبلہ کیا سارنگی گھبرائی تھی


بسمل کی رگ جاں بنتی تھی طاؤس کی تاریں لرزش سے
چائے کا پیالہ دور میں تھا حقہ نے دھوم مچائی تھی


رندوں نے جھنڈے گاڑے تھے زباد نے ڈیرے ڈالے تھے
اس دیر و حرم کی محفل میں موسیقی گانے آئی تھی


ہاں اشکوں سے پر سارنگی واں پیچ و تاب میں تھا طبلہ
گز بھر کی زباں یاں چلتی تھی واں ہاتھوں کی بن آئی تھی


واں تھاپ کے ابر گرجتے تھے نغموں کی پھواریں پڑتی تھیں
یاں ہر دل پر موسیقی کے کہرے نے قنات لگائی تھی


اڑتی تھیں فضا بھر میں تانیں تھی چال صبا کی مستانہ
تقدیر سے بیچ میں دونوں کے جا بیٹھا شاعر دیوانہ


سارنگی بولے طبلے سے تم یونہی شور مچاتے ہو
اے منہ پھٹ طبلے دیوانے کیوں کان ہمارے کھاتے ہو


آواز تمہاری کوے سی اور شکل چھلاوے سی تیری
ان میٹھی میٹھی تانوں کے تم رنگ میں بھنگ ملاتے ہو


لعنت ہے تمہارے جینے پر آرام نہیں عزت بھی نہیں
میں گودوں میں جا پھیلتی ہوں تم سر اپنا پٹواتے ہو


ہے خام ابھی تک عشق ترا کچھ صبر نہیں کچھ تاب نہیں
یاں تان اڑی اک میٹھی سی واں تھام کے دل رہ جاتے ہو


میں راج دلاری البیلی ناری ہوں پریم کنھیا ہوں
تم مونڈی کاٹے مردک ہو برجا پر دھکے کھاتے ہو


تہذیب تمہیں منظور نہیں اور عقل کہیں دستور نہیں
تم بھیم کی تانوں میں باہر کیوں آپے سے ہو جاتے ہو


نازوں سے پلی شہزادی ہوں میں ناری محلوں والی ہوں
تم جس دوام کے قیدی ہو صندوقوں میں ڈٹ جاتے ہو


جب سارنگی نے طبلے سے یوں دل شکنی کا کلام کیا
کچھ دیر تو وہ خاموش رہا پھر بھابھی جاں کو سلام کیا


یوں کہنے لگا سارنگی سے جلتی پر تیل گراتی ہو
ہم رنج و الم کے مارے ہیں تم آکر اور ستاتی ہو


مشتاق سے منہ پھیرا کیوں ہے پھر تم نے ہمیں آ گھیرا کیوں
رہنے دو اسے چپ مجبوراً کیوں میری زباں کھلواتی ہو


میں رنجیبار کا شہزادہ میدان میں آکر ضیغم سا
جب ایک دہاڑ لگاتا ہوں تم پردوں میں ڈر جاتی ہو


پیمان وفا جس سے باندھوں میں پاس اسی کے رہتا ہوں
تم ہرجائی ہو ہر اک کے پہلو میں دل بہلاتی ہو
کچھ لطف ہے سینہ کوبی میں سر پھوڑنے میں ہم مستوں کو
بی بی یہ عشق کے زیور ہیں تم یونہی ہم کو بناتی ہو


عزت پہ ہماری حرف زنی اللہ غنی اللہ غنی
وہ وقت بڑی بی بھول گئیں جب کام اپنے کچھواتی ہو


میں تیری شمیم نغمہ کو مانند نسیم اڑاتا ہوں
یہ میری تھاپ کی برکت ہے دل بزم میں مسلے جاتی ہوں


جب لڑکے مل کر گاتے ہیں عرفان کی تانیں اڑاتے ہیں
ہاتھوں سے میز بجاتے ہیں تم یاد کب ان کو آتی ہو


ہے ملکۂ موسیقی سے مجھے نزدیک تریں تجھ سے رشتہ
ہم راہ پہ تجھ کو لاتے ہیں جب لے میں بھٹک سی جاتی ہو


میں آذر عشق کی تابش سے دل محفل کے گرماتا ہوں
طاؤس طنبورے کو تج کر دن میں تارے دکھلاتا ہوں


یہ سن کر شمس الدین ڈرے تلوار مبادا چل جائے
یاں طبلہ تڑپتا رہ جائے سارنگی روتی رہ جائے


چمکار کے سارنگی سے کہا تم سیدھی سادی بھولی ہو
زیبا نہیں گر یوں منہ میں ترے انجانوں کی سی بولی ہو


طبلے کے وکیل مطلق نے واں ہاتھ سے اس کو سمجھایا
اچھا نہیں خوں کی لہروں سے گر محفل بھر میں ہولی ہو


تم زنجیبار کے شہزادے سارنگی سارنگی ٹھہری
پھبتی ہی نہیں شہزادوں کے گر ایسی بولی ٹھولی ہو
خاموش ہوئیں بی سارنگی اور طبلہ صم بکم تھا
یوں جیسے کسی نے زباں اپنی کوثر کے آب سے دھو لی ہو


القصہ بچھڑے دوست ملے نے جھگڑا تھا نے شکوہ تھا
نے تن تنا تن تن تن تھی تاکڑدھیا دھیا تھا