ساقیا کس کو ہوس ہے کہ پیو اور پلاؤ
ساقیا کس کو ہوس ہے کہ پیو اور پلاؤ
اب وہ دل ہی نہ رہا اور امنگیں نہ وہ چاؤ
رہنے دے ذکر خم زلف مسلسل کو ندیم
اس کے تو دھیان سے بھی ہوتا ہے دل کو الجھاؤ
کوچۂ عشق میں جانا نہ کبھی بھول کے تم
ہے وہاں آب دم تیغ کا ہر جا چھڑکاؤ
کیا ضرورت کہ حسینوں کے دہن کی خاطر
تم کمر باندھ کے ملک عدمستاں تک جاؤ
کیوں مٹو نقش قدم ساں کسی رفتار پہ تم
بیٹھے بٹھلائے غرض کیا ہے کہ اک حشر اٹھاؤ
کس طرح کوئی انہیں راہ پہ لائے یا رب
اور برگشتہ ہوئے جاتے ہیں جتنا سمجھاؤ
نا خدا بن کے خدا پار کر اس کا بیڑا
بے طرح پھنس گئی ہے ہند کی منجدھار میں ناؤ
یہ نہیں ہے کہ نہیں قابلیت کچھ ان میں
ہمتیں ہارنے کا ہو گیا کچھ ان کا سبھاؤ
غرب ہے مشرق خورشید علوم و حکمت
اب یہ لازم ہے کہ لو اپنی ادھر کو ہی لگاؤ
جو قدامت پہ اڑے بیٹھے ہیں وہ ہیں گمراہ
ان سے بچنا ہیں غضب ان کے اتار اور چڑھاؤ
ایشیا کے تو تمہیں نام سے کہنا ہی نہیں
وہی صورت ہے اسے کتنا ہی الٹو پلٹاؤ
رسم و مذہب سے نہ تم غیر بنو آپس میں
ہو چلت میں کوئی یا ٹھاہ میں سم پر مل جاؤ
بس کرو رہنے بھی دو وعظ و نصیحت کیفیؔ
ناصحوں کو تو یہاں پڑتی ہیں بازار کے بھاؤ