سانولی
سانولے جسم کی ہر قوس میں لہراتا ہے
مسکراتی ہوئی شاموں کا سلونا جادو
رقص کرتی ہے ترے حسن کی رعنائی میں
وادیٔ نجد کے جھونکوں کی لجیلی خوشبو
یہ ترے دوش پہ بل کھا کے بکھرتی زلفیں
جیسے معبد میں سلگتے ہوئے صندل کا دھواں
جیسے مغموم مصور کے سیہ پوش خیال
جیسے موہوم جزیروں کی چھبیلی پریاں
تو وہ برسات کی گھنگھور گھٹا ہے جس میں
ایک کیفیت نغمات چھپی بیٹھی ہے
دودھیا حسن سے اکتا کے مری نظروں نے
جب بھی دیکھا ہے ترے رنگ کا بھرپور نکھار
گونج اٹھی ذہن میں اڑتے ہوئے بھنوروں کی صدا
رچ گئی روح میں گاتی ہوئی کوئل کی پکار
کون ہے جس نے ترا ذکر نہ چھیڑا ہو کبھی
اب تو ہر بزم کا ہے ایک ہی موضوع سخن
کوئی دیتا ہے لقب لیلۂ بے محمل کا
کوئی کہتا ہے تجھے پیار سے کالی ناگن
کون سا لفظ ترے واسطے ایجاد کروں
سوچتا ہوں تجھے کس نام سے میں یاد کروں