سانجھ بھئی پردیس

بے کواڑ دروازے
راہ دیکھتے ہوں گے
طاق بے چراغوں کے
اک کرن اجالے کی
بھیک مانگتے ہوں گے
کیوں جھجک گئے راہی
کیوں ٹھٹک گئے راہی
ڈھونڈنے کسے جاؤ
انتظار کس کا ہو
راستے میں کچھ ساتھی
رہ بدل بھی جاتے ہیں
پھر کبھی نہ ملنے کو
کچھ بچھڑ بھی جاتے ہیں
قافلہ کبھی ٹھہرا
قافلہ کہاں ٹھہرا
راہ کیوں کرے کھوٹی
کس کا آسرا دیکھے
چند کانچ کے ٹکڑے
اک بلور کی گولی
ننھے منے ہاتھوں کا
جن پہ لمس باقی ہے
زاد راہ کافی ہے
خشک ہو چکے گجرے
کس گلے میں ڈالو گی
بھولی بھٹکی خوشبوؤ
کس کی راہ روکو گی
کس نے اشک پونچھے ہیں
کس نے ہاتھ تھاما ہے
اپنا راستہ ناپو
بے کواڑ دروازے
راہ دیکھتے ہوں گے
کل نئی سحر ہوگی
لاج سے بھری کلیاں
کل بھی مسکرائیں گی
کل کوئی نئی گوری
ادھ کھلی نئی کلیاں
ہار میں پروئے گی