سال نو

یہ کس نے فون پہ دی سال نو کی تہنیت مجھ کو
تمنا رقص کرتی ہے تخیل گنگناتا ہے
تصور اک نئے احساس کی جنت میں لے آیا
نگاہوں میں کوئی رنگین چہرہ مسکراتا ہے
جبیں کی چھوٹ پڑتی ہے فلک کے ماہ پاروں پر
ضیا پھیلی ہوئی ہے سارا عالم جگمگاتا ہے
شفق کے نور سے روشن ہیں محرابیں فضاؤں کی
ثریا کی جبیں زہرہ کا عارض تمتماتا ہے
پرانے سال کی ٹھٹھری ہوئی پرچھائیاں سمٹیں
نئے دن کا نیا سورج افق پر اٹھتا آتا ہے
زمیں نے پھر نئے سر سے نیا رخت سفر باندھا
خوشی میں ہر قدم پر آفتاب آنکھیں بچھاتا ہے
ہزاروں خواہشیں انگڑائیاں لیتی ہیں سینے میں
جہان آرزو کا ذرہ ذرہ گنگناتا ہے
امیدیں ڈال کر آنکھوں میں آنکھیں مسکراتی ہیں
زمانہ جنبش مژگاں سے افسانے سناتا ہے
مسرت کے جواں ملاح کشتی لے کے نکلے ہیں
غموں کے ناخداؤں کا سفینہ ڈگمگاتا ہے
خوشی مجھ کو بھی ہے لیکن میں یہ محسوس کرتا ہوں
مسرت کے اس آئینے میں غم بھی جھلملاتا ہے
ہمارے دور محکومی کی مدت گھٹتی جاتی ہے
غلامی کے زمانے میں اضافہ ہوتا جاتا ہے
یہی انداز گر باقی ہیں اپنی سست گامی کے
نہ جانے اور کتنے سال آئیں گے غلامی کے