صاحب کی بپتا
خانساماں ہے مصر ہر شب چکن بنوایئے
حاضری پر ''حاضر و غائب ٹماٹر'' کھائیے
جیب کہتی ہے چھری کانٹے فقط کھڑکائیے
لنچ پہ شلجم ڈنر میں توریاں فرمائیے
مطبخوں میں ''بوئے جوئے مولیاں'' ٹن ٹن میاں
دیو کی نندن ہو یا گل شیر خاں ٹن ٹن میاں
کھردرے پالش سے خستہ بوٹ چمکائیں گے کیا
''تخت پوشی درزیوں'' سے سوٹ سل جائیں گے کیا
ہم نے یہ مانا کہ دلی میں رہیں کھائیں گے کیا
بیویوں کو کوئی سمجھائے کہ سمجھائیں گے کیا
بج رہی ہیں جن کی خالی چوڑیاں ٹن ٹن میاں
دیو کی نندن ہو یا گل شیر خاں ٹن ٹن میاں
مل گیا بنگلہ مقدر سے تو ہریالی نہیں!
حضرت والا نے کتی گھاس تک پالی نہیں
اس بیاباں میں کوئی بوٹا نہیں ڈالی نہیں
آہ یہ کوٹھی کہ ویراں ہے مگر خالی نہیں
لٹ گئے سب اس کے ''گملے گملیاں'' ٹن ٹن میاں
دیو کی نندن ہو یا گل شیر خاں ٹن ٹن میاں
لیڈری کا شوق ذوق مینا بازاری بھی ہے
گھر کی مجبوری بھی جم خانے کی لاچاری بھی ہے
فلم پر تنقید فرمانے کی بیماری بھی ہے
ہر ادا بیگم کی مہنگی ہے مگر پیاری بھی ہے
عشق اور اندیشۂ سود و زیاں ٹن ٹن میاں
دیو کی نندن ہو یا گل شیر خاں ٹن ٹن میاں
والد ماجد کا طنز تلخ و پیہم اور ہم
مامتا کا دیدۂ بیدار پر نم اور ہم
مستقل روٹھی ہوئی بیگم کی بم بم اور ہم
گھر میں ہے پھیلی ہوئی اولاد آدم اور ہم
سرگراں ہیں جن کی میلی ٹوپیاں، ٹن ٹن میاں
دیو کی نندن ہو یا گل شیر خاں ٹن ٹن میاں
ہو چکے ہیں جب سے نینی تال و دہرہ دون بند
بکس میں ہیں جودھپوری کوٹ اور پتلون بند
ساغر و مینا میں اجمل خان کی معجون بند
صبح کے مضمون ساکت شام کے شبخون بند
جاؤ جمنا پر بجاؤ گھنٹیاں ٹن ٹن میاں
دیو کی نندن ہو یا گل شیر خاں ٹن ٹن میاں
یاد ایامے کہ بازاروں میں ارزانی بھی تھی
نوع انسانی میں کچھ توفیق نادانی بھی تھی
نوکری میں بندگی تو تھی سلیمانی بھی تھی
دن کی محنت تھی مگر راتوں کی سلطانی بھی تھی
اے مرے دل! ٹن ٹنن! اے میری جاں ٹن ٹن میاں
دیو کی نندن ہو یا گل شیر خاں ٹن ٹن میاں