ساغر سفالیں کو جام جم بنایا ہے
ساغر سفالیں کو جام جم بنایا ہے
پھیل کر مرے دل نے ''میں'' کو ''ہم'' بنایا ہے
ہم سفر بنایا ہے ہم قدم بنایا ہے
وقت نے مجھے کتنا محترم بنایا ہے
ناز ہے خلیلی کو حسن نقش ثانی پر
گرچہ آذری ہی نے یہ صنم بنایا ہے
بے کسیٔ دل اپنی دور کی ہے یوں میں نے
دوسروں کے غم کو بھی اپنا غم بنایا ہے
زندگی کی موسیقی کیا ہے ہم سمجھتے ہیں
ساز کے تلون کو زیر و بم بنایا ہے
زلف کی طرح اس کو بس سنوارتے رہیے
زندگی کو فطرت نے خم بہ خم بنایا ہے
میں نے ذرے ذرے کو مسکراہٹیں دی ہیں
تم نے ہر ستارے کو چشم نم بنایا ہے
مدعیٔ جدت ہے تیری فکر اے زاہد!
مے کدے کی اینٹوں سے کیوں ارم بنایا ہے
بت ہزاروں توڑے ہیں کتنے ٹکڑے جوڑے ہیں
زندگی نے جب جا کر اک صنم بنایا ہے