سادگی، اصلیت اور جوش

حالی نے نئی شاعری کی عمارت جن بنیادوں پر استوار کرنی چاہی تھی، انہیں تخیل، سادگی، اصلیت اور جو ش کا نام دیا جا سکتا ہے۔ تخیل کے بارے میں عام طور پر معلوم ہے کہ اس باب میں حالی کے افکار کو لرج سے مستعار ہیں، اگرچہ حالی نے کولرج کا نام کہیں نہیں لیا ہے۔ سادگی، اصلیت اور جوش کے بارے میں حالی نے خود ہی لکھا ہے کہ یہ تصورات انہوں نے ملٹن سے لیے ہیں۔ ان تصورات کی تعریف بیان کرتے ہوئے انہوں نے ’’ایک یوروپین محقق‘‘ کا بھی حوالہ دیا ہے۔ یہ بات عام طور پر نہیں معلوم ہے کہ یہ ’’یوروپین محقق‘‘ بھی کولرج ہی ہے۔


ممتاز حسین نے اپنی کتاب ’’حالی کے شعر ی نظریات، ایک تنقیدی مطالعہ‘‘ میں کولرج کا وہ حوالہ درج کر دیا ہے جہاں سے حالی نے ان تصورات کی تعریف حاصل کی تھی۔ ۱۸۵۳ میں کولرج کی بیٹی نے اس کے لکچر اور نوٹ شائع کر دیے تھے۔ اس کتاب کا حالی یا ان کے انگریز دوستوں کی دسترس میں ہونا بالکل متوقع بات ہے۔ ’’یوروپین محقق‘‘ کے حوالے سے حالی نے شیکسپیئر اور ہومر کا جو ذکر کیا ہے، وہ بھی اس کتاب سے مستعار ہے۔ (ممتاز حسین نے مؤخرالذکر کا تذکرہ نہیں کیا ہے۔) بہرحال، ممتاز حسین کی تحقیق اور تجزیے سے یہ بات تو صاف ہوہی گئی کہ کولرج کے افکار ملٹن کا روپ دھار کر حالی کے افادیت پرست لباس میں نمودار ہوئے ہیں۔


ملٹن کے اصل حوالے تک حالی یا ان کے رہنماؤں کی پہنچ غالباً نہ تھی، ورنہ انہیں معلوم ہوتا (جیسا کہ ممتاز حسین نے بھی واضح کیا ہے) کہ ملٹن دراصل یہاں شاعری اور RHETORIC کا موازنہ کر رہا ہے۔ ملٹن کے یہاں RHETORIC سے مراد خطابت اور گفتگو کے وہ طریقے ہیں جن کو استعمال کرکے ہم دوسروں کو اپنا ہم خیال بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ریطوریقا کی یہ تعریف عربوں کو یونانیوں کے ذریعے معلوم تھی اور یونانیوں کی طرح وہ بھی منطق اور ریطوریقا کو شاعری سے مختلف سمجھتے تھے۔ حالی کو عربوں کے تنقیدی افکار کی زیادہ خبر نہ تھی لیکن اتنا تو وہ بھی سمجھتے تھے کہ لوگوں کو اپنا ہم خیال بنانے کے طریقوں اور شاعری میں بہت فرق ہے۔ اگر انہیں ملٹن کا اصل حوالہ معلوم ہوتا تو وہ ملٹن کے قول اور کولرج کی تشریح کو شاید اتنی آسانی سے نہ قبول کرتے۔


ملٹن کا خیال تھا کہ منطق اور ریطوریقا کی طرح شاعری بھی INSTRUMENTAL ART ہے یعنی اس کا کوئی اپنا موضوع نہیں۔ کسی بھی موضوع کو لے کر شاعر اپنے خیالات اس طرح بیان کرتا ہے کہ لوگ اس کے ہم خیال ہوجائیں۔ ریطوریقا اور شاعری میں فرق درجے کا ہے، جنس (KIND) کا نہیں۔ ریطوریقا میں (بقول ملٹن) استدلال زیادہ باریک اور زیادہ گہرا (یعنی FINE اور SUBTLE) ہوتا ہے۔ جارج ولیم سن کا کہنا ہے کہ ملٹن کی اس تعریف کی روشنی میں کہ شاعری کا استدلال ریطوریقا کے مقابلے میں SIMPLE SENSUOUS اور PASSIONATE ہوتا ہے، یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ ملٹن کی نظر میں شاعری کچھ نہیں محض ریطوریقا کا ایک زیادہ تخیلی روپ ہے۔


ملٹن نے یہ خیالات اپنے رسالے OF EDUCATION میں بیان کیے ہیں۔ کلیم الدین صاحب کو شاید اس کا علم نہ تھا۔ چنانچہ حالی کی کم علمی پر وہ بہت کچھ لکھتے ہیں لیکن ملٹن کے رسالے کا تذکرہ نہیں کرتے۔ ہمیں ممتاز حسین کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ انہوں نے ملٹن کے رسالے کا ذکر کیا ہے۔ لیکن حالی کی داڑھی میں ہاتھ دے کر ہنسنے کے انداز میں نہیں بلکہ علمی اور معلوماتی انداز میں۔ خیر یہ تو برسبیل تذکرہ بات تھی۔ اصل بات یہ ہے کہ ملٹن کو کولرج کے توسط سے پڑھنے کی بنا پر حالی نے جو نتائج نکالے وہ اس لیے غلط تھے کہ کولرج نے ملٹن کے تصورات کو من مانے انداز میں بیان کیا تھا۔ وہ نتائج اس لیے بھی غلط تھے کہ خود حالی نے کولرج کو ٹھیک سے سمجھا نہیں۔ اس پر مزید یہ کہ بعض باتیں حالی کی اپنی تھیں اور انہوں نے ان کو ’’یوروپین محقق‘‘ کا پردہ رکھ کر بیان کیا۔


لیکن اس کے پہلے کہ ہم حالی پر یہ الزام لگائیں کہ وہ اوسط درجے کا دماغ رکھتے تھے، اس لیے ملٹن کو نہ سمجھ سکے، ہمیں یہ بات بھی جان لینی چاہیے کہ کولرج نے ملٹن کی جو تشریح کی تھی وہ بھی سراسر غلط تھی۔ اور خود کولرج کے بیانات، جن سے حالی نے استفادہ کیا، اس قدر مبہم اور جرمن ماورائی فلسفے کے تصورات سے اس قدر متاثر اور کولرج کی اپنی فکر میں اس قدر ڈوبے ہوئے ہیں کہ جرمن ماورائی فلسفہ، جرمن رومانیت اور کولرج کے اپنے افکار کو پوری طرح جانے بغیر ان عبارات کو سمجھنا ممکن نہیں جن پر حالی نے تکیہ کیا ہے۔ کلیم الدین صاحب نے بھی اس جگہ سکوت اختیار کیا ہے۔


سادگی کی جو تعریف حالی نے یوروپین محقق کے نام پر لیکن بیش تر اپنے دل سے بیان کی ہے، اس پر کلیم الدین صاحب کوئی اضافہ نہیں کرتے اور نہ کولرج کا ذکر کرتے ہیں۔ جوش کی تعریف میں حالی نے کولرج سے رشتہ توڑ لیا ہے لیکن کلیم الدین صاحب بھی یہ غور نہیں کرتے کہ ملٹن نے PASSIONATE کی اصطلاح کس معنی میں استعمال کی ہے۔ اصلیت کے بارے میں وہ ضرور کہتے ہیں کہ ملٹن نے دراصل SENSUOUS لکھا ہے۔ لیکن یہ نہیں بتاتے کہ ملٹن کی نظرمیں اس کے معنی کیا تھے اور کولرج کی نظر میں اس کے معنی کیا تھے۔


اس مختصر مضمون میں یہ دیکھنا مقصود ہے کہ ملٹن کے نزدیک SIMPLE اور SENSUOUS اور PASSIONATE کے کیا معنی ہو سکتے تھے اور کولرج نے انہیں کیا سمجھا اور حالی نے انہیں کیا جامہ پہنایا؟ غایت کلام یہ ہے کہ حالی نے جن افکار کی خلعت پہناکر اردو کی محفل شعر میں اس طرح جلوہ گر کیا کہ ان کے بعد کوئی پچاس سال تک وہ ہمارے لیے معیاری اور قواعدی NORMATIVE بن گئے اور آج بھی ان کا اثر باقی ہے، وہ دراصل مغربی افکار نہیں ہیں اور اپنی مغربی اصل میں بھی وہ افکار محل نظر اور بڑی حدتک صداقت سے عاری ہیں۔ اس کے برعکس، جو افکار حالی کے اپنے ہیں، ان میں سے بعض باتیں بہت سچی ہیں۔


یہ تو ہم دیکھ ہی چکے ہیں کہ ملٹن نے اپنے رسالے OF EDUCATION میں یہ بحث اٹھائی ہے کہ شاعری ایک طرح کی ریطوریقا ہے اور اس کا بھی مقصود یہی ہے کہ لوگوں کو اپنا ہم خیال بنایا جائے۔ بس فرق یہ ہے کہ شاعری میں اتنی باریک بیانی نہیں ہوتی جتنی ریطوریقا میں ہوتی ہے۔ اس کے خیال میں شاعری کا استدلال SIMPLE ہوتا ہے یعنی خود شاعری SIMPLE نہیں ہوتی بلکہ اس کا استدلال SIMPLE ہوتا ہے۔ لہٰذا ملٹن نے SIMPLE سے جو معنی مراد لیے تھے ان کا تعلق طرز ادا یا اسلوب کی پیچیدگی سے نہیں، بلکہ استدلال، دعوااور دلیل کی پیچیدگی سے ہے۔ یعنی یہاں SIMPLE دراصل COMPLEX کا متضاد ہے۔ SIMPLE استدلال وہ ہے جس میں عناصر کی کثرت نہ ہو، کوئی الجھاؤ نہ ہو۔


مندرجہ بالا تشریح کی روشنی میں آکسفرڈ انگلش ڈکشنری (O.E.D.) میں درج لفظ SIMPLE کی حسب ذیل تعریفات ملاحظہ ہوں۔ میں نے مثالیں اسی زمانے سے دی ہیں جو ملٹن کے زمانے سے قریب ہے۔


15. Not complicated of involved; presenting little of no complexity of difficulty.


a, Shakespeare (1601) ; If that this simple syllogism will serve… Culpepper (1668) The motion of the elements is simple, never circular.


3 Free from elaboration of artificiality artless, unaffected, plain, unadorned.


a, Phillips (1696) ; Simple style, of easy plain style.


یہ لفظ اس زمانے میں (بلکہ انیسویں صدی) اسم بھی تھا۔ اس ضمن میں یہ تعریف ہمارے لیے بہت کارآمد ہے۔


B7b. A Simple proposition, quantity, idea, etc.


3, Coke (1654) … This proposition is to be reduced to a mere simple.


حالی کے معاصر انگریز بھی بطور منطقی اصطلاح اس لفظ سے واقف رہے ہوں گے۔ اس کے ثبوت کے طور پر O.E.D. سے حسب ذیل مثال ملاحظہ ہو۔


O.E.D.


Bain (1879) … If it is a simple, we must define it in its simplicity.


اب کولرج (اور اس کی متابعت میں حالی) نے گڑبڑ یہ کی کہ جہاں ملٹن نے یہ کہا تھا کہ شاعری کا استدلال ریطوریقا کے مقابلے میں SIMPLE ہوتا ہے، ان لوگوں نے SIMPLE کی جگہ SIMPLICITY کر دیا اور اس کو شاعری کی صفت گردانا۔ کولرج نے دوسری زیادتی یہ کی کہ اس تصور کو اس نے اپنے مقصد کے لیے بالکل نئے معنی دے دیے اور اس معنی کو ورڈزورتھ پر بالواسطہ اعتراض کے لیے استعمال کیا۔ چنانچہ کولرج کہتا ہے کہ شعر کا متضاد نثر نہیں ہے بلکہ سائنس ہے۔ سائنس تو کسی حقیقت کی تلاش میں سرگرداں رہتی ہے۔ سائنس کا کام ہے نہ جانی ہوئی اشیا کو جاننے کی کوشش میں، تلاش حق کی دشوار گزار وادی میں سفر کرنا۔ اس کے برخلاف شاعری کا مقصد صرف ذہنی اور روحانی لطف (INTELLECTUAL PLEASURE) ہے۔ (واضح رہے کہ کولرج یہاں لفظ INTELLECTUAL کو نو افلاطونی اور جرمن ماورائی فلسفے کی اصطلاح کے طور پر برت رہا ہے) ۔


پھر وہ کہتا ہے کہ ایسا لطف حاصل کرنے کے لیے شعر ایسی زبان کو کام میں لاتا ہے جو ہم اس وقت فطری طور پر استعمال کرتے ہیں جب ہم اہتراز EXCITEMENT کی کیفیت میں ہوتے ہیں۔ اس کی یہ بات کہ شعر سے INTELLECTUAL لطف حاصل ہوتا ہے، کانٹ کے نظریہ حسن سے براہ راست مستعار ہے اور شعر کی زبان کا اس زبان سے مماثل ہونا جو اہتزاز کے عالم میں انسان استعمال کرتا ہے، یہ تصور کولرج کا اپنا ہے۔ اس پر اس نے اپنے اس خیال کی بنیاد رکھی تھی کہ موزونیت METRICALITY شعر کا وصف ذاتی ہے۔


بہرحال اتنا کہہ دینے کے بعد کولرج، ملٹن کے ’’جملۂ معترضہ‘‘ کی خوب تعریف کرکے کہتا ہے کہ سادگی دراصل وہ صفت ہے جس کے ذریعہ شعر اور نثر میں امتیاز قائم ہوتا ہے اور دوسری طرف، سادگی کا الترام کرنے سے ہم ہر طرح کے تصنع (AFFECTATION) اور مریضانہ بداعت (MORBID PECULIARITY) سے محفوظ رہتے ہیں۔ ملٹن تو یہ کہہ رہا ہے کہ شاعری کے مقدمات اور استدلال غیرپیچیدہ ہوتے ہیں اور کولرج ہمیں بتا رہا ہے کہ سائنس اور شعر میں فرق ہے تو یہ ہے کہ شاعری میں سادگی ہوتی ہے۔ اس کا دوسرا بیان پہلے بیان سے بالکل غیرمتعلق ہے لیکن چونکہ اس کا کہنا ہے کہ موزونیت شعر کی فطری حالت ہے، لہٰذا تصنع اور مریضانہ بداعت سے اس کی مراد دراصل یہ ہے کہ شعر کے آہنگ میں کوئی بھونڈا پن، کوئی جدت برائے جدت نہ ہونی چاہیے۔


اپنے پہلے اور دوسرے بیانات کے بیچ میں کولرج شاعری کو ایسی شاہراہ سے تعبیر کرتا ہے جو وسیع اور آسان ہے، جس کے دونوں طرف درخت، گھر اور پھول پتیاں ہیں اور جو اس راہ کے مسافر کا سفر خوشگوار بناتی ہیں۔ اس کے برخلاف، سائنس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی چٹان اور پہاڑ کاٹ کر دوسروں کے لیے راہ ہموار کرے۔ حالی نے بیچ کی یہ بات اٹھالی اور لکھا (مقدمہ، رام نرائن لعل اڈیشن ۱۹۵۳، صفحہ۶۶)،


’’محسوسات کے شارع عام پر چلنا، بے تکلفی کے سیدھے رستے سے ادھر ادھر نہ ہونا اور فکر کو جولانیوں سے باز رکھنا، اسی کا نام سادگی ہے۔ علم کا رستہ اس کے طالبوں کے لیے ایسا صاف نہیں ہو سکتا جیسا کہ شعر کا رستہ اس کے سامعین کے لیے صاف ہونا چاہیے۔ طالب علم کو پستی اور بلندی، غار اور ٹیلے، کنکر اور پتھر اور موجیں اور گرداب طے کرکے منزل پر پہنچنا ہوتا ہے لیکن شعر پڑھنے یا سننے والے کو ایسی ہموار اور صاف سڑک ملنی چاہیے جس پر وہ آرام سے چلا جائے۔ ندی نالے اس کے ادھر ادھر چل رہے ہوں اور پھل پھول درخت اور مکان اس کی منزل ہلکی کرنے کے لیے ہر جگہ موجود ہوں۔‘‘


کولرج نے جو استعارہ سائنس اور شعر کا فرق بتانے کے لیے وضع کیا تھا، اس کو تعلیم اور تعلم کا استعارہ سمجھ کر حالی علم کو ’’مشکل‘‘ اور شاعری کو ’’آسان‘‘ قرار دیتے ہیں۔ بات چونکہ ’’یوروپین محقق‘‘ نے کہی تھی، اس لیے سب کے دلوں میں جاگزیں ہوئی۔


کولرج کا معاملہ یہ تھا کہ وہ شعر کو حقیقت کی دریافت کا عمل قرار دینے کا قائل نہ تھا۔ وہ اس بات پر مصر تھا کہ شاعر پر تمام حقائق از خود منکشف ہوتے ہیں۔ یہ نوافلاطونی اثبات وجود تھا جو کولرج نے تھوڑا بہت اپنے آپ اور تھوڑا جرمن ماورائیت سے حاصل کیا تھا۔ اس نے اپنے ایک لکچر میں کہا ہے کہ افلاطون ہم سے اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ہم اپنے آپ میں اتریں اور ان قوانین کو دریافت کریں جن پر تمام کائنات عمل پیرا ہے۔ اس تصور کا لازمی نتیجہ تھا کہ شاعر حقائق کا مالک ہو، نہ کہ استقرا و استنباط سے ان کو دریافت کرے، جیسا کہ سائنس کرتی ہے۔


اس کا نتیجہ یہ بھی تھا کہ شعر نہ صرف مقصود بالذات ہو، بلکہ یہ بھی کہ شاعر کی شخصیت میں تمام شخصیتیں مجتمع ہوں۔ اس صفت کو اس نے شاعر کی صفت PROTEAN کا نام دیا ہے۔ (PROTEUS ایک یونانی دیوتا ہے جو ہر طرح کی شکل بنا لیتا ہے۔) شیکسپیئر میں کولرج یہ صفت بدرجۂ اتم دیکھتا ہے۔ حالی نے جس لکچر سے مندرجہ بحث اخذ کی ہے، اسی میں شیکسپیئر کی اس صفت کا بھی ذکر ہے۔ اسے حالی نے اپنے مطلب کے لیے یوں استعمال کیا ہے (صفحہ۶۶)،


’’دنیا میں جو شاعر مقبول ہوئے ہیں ان کا کلام ہمیشہ ایسا ہی دیکھا گیا ہے اور ایسا ہی سنا گیا۔ اس کی ہرذہن سے مصالحت اور ہر دل میں گنجایش ہوتی ہے۔‘‘


اس طرح ملٹن کا منطقی مباحثہ کولرج کی نوافلاطونی ماورائیت کا چولا بدلتا ہے اور پھر حالی اسے انیسویں صدی کی انگریزی افادیت پرستی کی جون میں پیش کرتے ہیں۔ ملٹن کا بیان تو لچر ہے ہی، کہ شاعری بھی ایک طرح کا INSTRUMENT OF PERSUASION ہے، کیونکہ شاعری کا طریق کار اور اس کا تفاعل دونوں ہی منطقی PERSUASION کی نفی کرتے ہیں۔ شاعری کے معنی کی نوعیت اور تعداد، دونوں ہی ریطوریقا کی سرحد سے بہت آگے ہیں۔ کولرج کا بھی یہ خیال کچھ کم مضحکہ خیز نہیں کہ شعر اور سائنس میں مابہ الامتیاز اول الذکر کی SIMPLICITY ہے۔ اور بات تو بالکل ہی غلط ہے کہ ملٹن نے لفظ SIMPLE جس مفہوم میں استعمال کیا ہے اس سے مراد یہ نکلتی ہے کہ SIMPLICITY شاعری کا وصف ہے۔


دریدا کا یہ خیال اپنی جگہ صحیح ہے کہ جب ایک دال (SIGNIFIER) کے بہت سے مدلول ہیں تو یہ لازم ہے کہ اس دال میں تمام مدلولات کا نقش خفیف (TRACE) بیک وقت موجود ہو۔ ہم صرف یہ کرتے ہیں کہ امتیاز (Difference) کو التو (DIFERMENT) میں بدل لیتے ہیں یعنی جو مدلول سیاق و سیاق کے اعتبار سے غیر متعلق ہوں، ان کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ لیکن ان کا نقش خفیف ہمیشہ ہمارا پیچھا کرتا رہتا ہے۔ (یہ بات بالکل نئی نہیں ہے لیکن دریدا نے اسے بڑی قوت اور وضاحت سے بیان کیا ہے۔ اس سے جو نتائج اس نے نکالے ہیں وہ فی الحال ہمارے موضوع سے خارج ہیں۔)


بہرحال لفظ SIMPLE کے مختلف معنی ہیں۔ بعض میں نے درج کیے ہیں اور بعض کو ترک کیا ہے۔ مثلاً SIMPLE کے ایک معنی ’’احمق یا کمزور دماغ والا‘‘ بھی ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ملٹن نے لفظ SIMPLE کو جس طرح استعمال کیا ہے، اس میں SIMPLE بمعنی غیر پیچیدہ، تصنع سے عاری، وسیع تفصیلات سے خالی، کمزور دماغ والااور منطقی اصطلاح میں ایسا قضیہ جس میں مسائل (ENTITIES) زیادہ نہ ہوں، ان سب معنی کا نقش خفیف موجود ہے۔ کولرج ان سب سے بے نیازولاعلم ہے، کیونکہ وہ SIMPLE کو SIMPLICITY میں بدل کر اسے اپنی ہی راہ چلانا چاہتا ہے۔


حالی اپنی ’’سادگی‘‘ کے باعث SIMPLICITY کے عام معنی ’’سادگی‘‘ کو قبول کرکے اسے اپنے معنی پہناتے ہیں اور کولرج کے تصور کو انیسویں صدی کی افادیت کا رنگ دے دیتے ہیں۔ پھر بھی، ملٹن کے اصل خیال کا تھوڑا سا نقش انہوں نے قبول کیا ہے کہ شعر میں بیان کردہ مضمون ایسے پیچیدہ اور دوراز کار نہ ہوں جن کے سمجھنے کی عام ذہنوں میں گنجایش نہ ہو۔ پھر بحث کو سمیٹتے ہوئے حالی لکھتے ہیں (صفحہ ۷۰۔ ۷۱) کہ


’’خیال کیسا ہی بلند اور دقیق ہو مگر پیچیدہ اور ناہموار نہ ہو اور جس قدر شعر کی ترکیب معمولی بول چال سے بعید ہوگی، اسی قدر سادگی کے زیور سے معطل سمجھی جائےگی۔‘‘


کلیم الدین اس بیان کے منطقی تضاد پر انگشت نما نہیں ہوئے۔ وہ اس بات پر ناراض ہیں کہ ’’سادگی کوئی متعین صفت نہیں۔ جسے ایک شخص سادہ سمجھتا ہے وہ چیز کسی دوسرے شخص کی نظر میں پیچیدہ معلوم ہو سکتی ہے۔‘‘ حالی تو یہ بات پہلے ہی کہہ چکے ہیں (صفحہ ۶۹) کہ ’’سادگی ایک اضافی امر ہے۔‘‘ اور اس پر ایک صفحے کی بحث بھی لکھ چکے ہیں۔ دیکھنے کی بات تو یہ ہے کہ انہوں نے سادگی کو اضافی قرار دے کر غالب کو اس سولی پر لٹکنے سے بچا لیا جو وہ عام اردو شعرا کے لیے کھڑی کر رہے تھے۔ اور دوسری بات دیکھنے کی یہ ہے کہ سادگی کی جو تعریف انہوں نے بنائی ہے، اس کا علاقہ نہ ملٹن سے ہے، نہ کولرج سے۔ حالی کے اعتبار سے تو ہر کلام سادہ ہے، بشرطیکہ اس میں ’’سخافت اور رکاکت‘‘ نہ ہو۔ سنیے (صفحہ۷۰)،


’’ایسا کلام جو اعلا و اوسط درجے کے آدمیوں کے نزدیک سادہ اور سمپل ہو اور ادنا درجے کے لوگ اس کی اصل خوبی کو سمجھنے سے قاصر ہوں، ایسے کلام کو سادگی کی حد میں داخل رکھنا چاہیے۔‘‘


سلیم احمد نے لکھا ہے کہ ’’مولانا حالی بھولے بادشاہ ہیں۔‘‘ ان کے تضادات کو دیکھ کر یہی کہنا پڑتا ہے۔ لیکن اگر یہ فرض کیا جائے کہ یہ تضادات ارادی ہیں اور منطق کی ناکافی کا نتیجہ نہیں ہیں تو پھر مولانا حالی بھولے بادشاہ نہیں بلکہ عمروعیار معلوم ہوتے ہیں۔ انہوں نے ایک طرف تو اردو شاعروں کو یقین دلادیا کہ وہ سب مردود اور راندۂ درگاہ ہیں اور دوسری طرف اپنی اصلی پسند کی تمام شاعری کی گنجایش بھی رکھ لی۔ اب یہ اور بات ہے کہ ان کی افادیت پرستی مقبول ہوئی اور عقل مند قاری کے لیے انہوں نے جو اشارے چھوڑے تھے وہ نظرانداز ہو گئے۔


ہومر اور شیکسپیئر کی PROTEAN صفت اور ’’مستثنیات‘‘ جگہ ’’عام شق‘‘ کو اختیار کرنے کی عادت کے بارے میں کولرج نے جو لکھا تھا، اس کی فلسفیانہ بنیاد کی طرف میں تھوڑا سا اشارہ کر چکا ہوں۔ حالی ان نکات سے بے خبر ہیں لیکن اس بات کو اپنے مقصد کے لیے بے تکلف استعمال کر لیتے ہیں، یعنی اسے وکٹوریائی افادیت پرستی کے نقطۂ نظر پر محمول کرتے ہیں۔ مومن کا شعر ہے،


رہتے ہیں جمع کوچۂ جاناں میں خاص و عام
آباد ایک گھر ہے جہان خراب میں


اس کے معنی وہ بالکل غلط بیان کرتے ہیں (صفحہ ۶۷) کہ ’’شاعر نے معشوق کے چند خریدار جن کو بمقابلہ تمام بنی نوع کے مستثنیات میں شمار کرنا چاہیے، اس کے کوچے میں جمع دیکھ کر یہ حکم لگایا ہے کہ سارا جہان اس کے کوچے میں مجتمع رہتا ہے۔ اگرچہ اس کے طرز بیان سے شاعر کا لطف طبع ضرور ثابت ہوتا ہے لیکن اثر کچھ نہیں۔‘‘ بحث ہو رہی تھی سادگی اور وہ اٹھالائے ’’اثر‘‘ کو۔ اثر کی یہاں گفتگو ہی نہ تھی اور نہ شعر میں یہ کہا گیا ہے کہ سارا جہاں معشوق کے کوچے میں جمع ہے۔ کہا تو یہ گیا ہے کہ چونکہ خاص و عام ہر طرح کے لوگ معشوق کے دلدادہ ہیں، اس لیے اس جہان ویران میں ایک معشوق ہی کا گھر آباد ہے۔ یہ معاملہ معنی آفرینی اور مضمون آفرینی کا ہے۔ (حالی خود شاعر کے لطف طبع کی تعریف کرتے ہیں۔) اس شعر کو اس بات سے کیا علاقہ کہ شاعر نے ’’عام شق‘‘ چھوڑ کر ’’مستثنیات‘‘ کو اختیار کیا ہے؟ پھر ہومر اور شیکسپیئر دونوں کے یہاں جس طرح کی عمومیت ہے اس کی بنیاد ایک مختلف بوطیقا پر ہے، اس کا غزل کی بوطیقا سے کیا علاقہ؟ لیکن حالی کو چونکہ افادیت کا جھنڈا گاڑنا ہے، اس لیے مومن کے دوسرے شعر کا مطلب بھی وہ غلط بتاتے ہیں،


ایک ہم ہیں کہ ہوئے ایسے پشیمان کہ بس
ایک وہ ہیں کہ جنہیں چاہ کے ارماں ہوں گے


اس پر حالی لکھتے ہیں کہ شاعر نے ’’ایسی عام شق اختیار کی ہے جس میں استثنا کو بہت ہی کم دخل ہے۔ کیونکہ ہوا و ہوس کا انجام ہمیشہ پشیمانی ہوتی ہے۔ شعر کو ’’ہواوہوس‘‘ کے خلاف اخلاقی بیان قرار دے کر اور اس کے اصل مفہوم سے قطع نظر کرکے (کہ عشق ایسا تجربہ ہے جس میں حسرت و حرماں کے سوا کچھ نہیں) حالی نے شعر کے ساتھ زیادتی تو کی، لیکن ’’یوروپین محقق‘‘ کی سند کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کر لیا۔


اب ’’اصلیت‘‘ کو دیکھیے۔ جیسا کہ معلوم ہے، ملٹن کا لفظ SENSUOUS ہے۔ کلیم الدین صاحب نے صحیح کہا ہے کہ SENSUOUS وہ نہیں جو ’’اصلیت‘‘ ہے۔ انہوں نے اپنی ’’فرہنگ ادبی اصطلاحات‘‘ میں یہ بھی ٹھیک لکھا کہ یہ لفظ ملٹن کا اختراع کردہ ہے۔ لیکن اس کے ترجمے میں انہوں نے بھی غلطی کہ جو اسے ’’حسی تجربات سے متعلق، حسی‘‘ لکھا۔ پہلی بات تو یہ بیان کرنے کی ہے کہ ملٹن نے یہ لفظ غالباً SENSUAL (خواہشات نفسانی سے متعلق) کے انسلاکات سے الگ رہنے کی خاطر گڑھا۔ اس نے یہ لفظ OF EDUCATION (۱۶۴۴) کے پہلے بھی ایک بار استعمال کیا ہے۔ آکسفرڈ انگلش ڈکشنری (O.E.D) کے مطابق ملٹن نے سب سے پہلے یہ لفظ ۱۶۴۱ میں اپنے رسالے OF REFORMATION TOUCHING CHURCH DISCIPLINE IN ENGLISH میں استعمال یوں کیا،


The soul… her visible and sensuous colleague the body.


لہٰذا یہاں اس کے معنی ہوئے وہ چیز جس کا ادراک حواس کے ذریعہ ہو سکے۔ O.E.D. کے مطابق ملٹن کے صدیوں بعد کولرج نے اسے استعمال کیا۔ اپنے مضمون مورخہ ۱۸۱۴ میں کولرج نے لکھا،


Principles of Genial Criticism


...To express… what belongs to the senses or the recipient and more passive faculty of the soul, I have reintroduced… sensuous.


ظاہر ہے کہ یہاں معنی ذرا مختلف ہیں اور چونکہ ملٹن کے بعد اس لفظ کو کولرج سے پہلے کسی نے استعمال نہیں کیا، اس لیے اسے ایسا لفظ نہیں کہہ سکتے جو اس وقت تک قائم ہو چکا ہو او ر جس کے معنی پر عام طور پر اتفاق ہو۔ بہرحال، اپنے اس لکچر میں، جو حالی کا ماخذ ہے، کولرج نے اس کو تقریباً اس معنی میں استعمال کیا جس معنی میں ازرا پاؤنڈنے پیکر پرستی کی اصطلاح استعمال کی تھی۔ یعنی SENSUOUSNESS وہ صفت ہے جو معروضیت قائم کرتی ہے، جو پیکر کو قطعیت اور وضاحت دیتی ہے اور پیکروں میں اس طرح کمی بیشی (MODIFICATION) کرتی ہے، جس کے بغیر شاعری یا تو محض طالب علمانہ مشق DIALECTIC PRACTICE یا دھندلی، بے خیال اور رویاے بیداری DAYDREAMING بن جاتی ہے۔


یہ بھی ظاہر ہے کہ کولرج کے مندرجہ بالا خیالات کا ملٹن کے اصل مقتضا سے کوئی واسطہ نہیں، سوائے اس کے کہ پیکر IMAGE کی بھی بنیاد حواس پر ہوتی ہے۔ اور یہ بات تو واضح ہوگی ہی کہ ملٹن نے صرف یہ کہا ہے کہ شاعری بمقابلہ ریطور بقا زیادہ SENSUOUS ہوتی ہے۔ یہ نہیں کہ SENSUOUSNESS خاص شاعری کی صفت ہے۔ کولرج کو چونکہ شعر کی زبان کے مسائل سے بے حد شغف تھا اور اسے اس بات کا بھی احساس تھا کہ شاعری کی زبان نثر کے مقابلے میں زیادہ درست یعنی PRECISE ہو سکتی ہے، اس لیے وہ ہر جگہ اس نکتے کے مختلف پہلو بیان کرتا ہے کہ شاعری کی زبان میں بیان کی جانے والی اشیا میں خارجی دنیا سے مشابہت بھی ہوتی ہے اور اختلاف بھی ہوتا ہے۔ اس بات کو وہ SAMENESS AND DIFFERENCE کی اصطلاح کے ذریعہ ظاہر کرتا ہے۔ محولہ بالا بحث میں بھی اسی لیے وہ پیکر کے دونوں تفاعلات کو بیان کرتا ہے، کہ پیکر کے ذریعہ اشیا کو معروضی طور پر پیش کرنے ساتھ ان کو MODIFY بھی کر دیا جاتا ہے۔ لیکن ان مسائل کا ملٹن سے کوئی تعلق نہیں۔


لطف یہ ہے کہ حالی جو کچھ بحث ملٹن کے نام پر ’’یوروپین محقق‘‘ (کولرج) کے حوالے سے بیان کی ہے، اس کا بھی کوئی تعلق ملٹن سے نہیں۔ کولرج سے اس کا تعلق بس اتنا ہے کہ کولرج نے کہا ہے کہ اگر MODIFYING IMAGES نہ ہو تو شاعری محض UNTHOUGHTFUL اور DAYDREAMING بن جائے۔ لہٰذا حالی کہتے ہیں (صفحہ ۶۷۔ ۶۸) کہ


’’خیال کی بنیاد ایسی چیز پر ہونی چاہیے جو درحقیقت کچھ وجود رکھتی ہو۔ یہ نہ ہو کہ سارا مضمون ایک خواب کا سا تماشا ہو۔‘‘


یہاں حالی کو لرج کے نام پر واقعیت کا وہ تصور بیان کر رہے ہیں جسے وہ خود عام کرنا چاہتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کولرج کے یہاں واقعیت کا کوئی تصور نہیں۔ ایک جگہ تو وہ ایسی بات کہہ گیا ہے جسے آج کل سوسیور کے خیالات کی مقبولیت کے باعث بچہ بچہ جان گیا ہے، کہ الفاظ کے پیچھے اشیا کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔ ایک خط میں کولرج نے لکھا ہے،


’’ماہرین قواعد اور فلسفۂ قواعد و زبان پر لکھنے والوں کی ایک بنیادی غلطی یہ ہے کہ وہ یہ گمان کرتے ہیں کہ الفاظ اور ان کی نحوی شکلوں اور اشیا میں کوئی توافق ہے، یا یہ کہ وہ اشیا کے فوری نمائندے ہیں۔ الفاظ کا توافق محض تصورات سے ہے۔‘‘


لہٰذا وہ چیز جسے دریدا تمام یورپی مفکروں کا مشترک گناہ قرار دے کر رد کرتا ہے اور جس کو وہ ’’موجودیت کی مابعد الطبیعیات (THE METAPHYSICS OF PRESENCE) کا نام دیتا ہے۔ اس کا انکار و تردید کولرج بہت پہلے ہی کر چکا ہے۔ ایسے شخص کے سہارے واقفیت کا نظریہ حالی اور ان کے انگریز استاد ہی تیار کرنے کی ہمت کر سکتے تھے۔


خیر، یہ تو جملہ معترضہ تھا۔ ملٹن جب کہتا ہے کہ RHETORIC کے مقابلے میں شاعری زیادہ SENSUOUS ہوتی ہے تو اس کی مراد بس اتنی تھی کہ جہاں ریطوریقا میں عقلی دلائل زیادہ ہوتے ہیں، شعر میں ایسی باتیں زیادہ ہوتی ہیں جن کی بنیاد ہمارے محسوسات پر ہوتی ہے۔ چونکہ مغربی حکما کے علاوہ مسلمان حکمانے بھی اشیا کی حقیقت کو مبنی برادراک بتایا ہے اور ادراک کی اصل محسوسات میں ہے، اس لیے حالی نے SENSUOUSNESS کا ترجمہ ’’اصلیت‘‘ کر دیا۔ لیکن اس میں مشکل یہ آ پڑی کہ ’’اصل‘‘ اور ’’نقل‘‘ کا جھگڑا پیدا ہوا۔ (’’اصل‘‘ کے معنی میں ’’نقل‘‘ کا TRACE تو ہے ہی۔) اور پھر بات ’’اصل‘‘ سے ’’عین‘‘ پر جاکر ٹھہری، کیونکہ افلاطون کے خیال میں ہر اصل کا ایک عین ہوتا ہے۔


اس طرح حالی نے اصلیت کی تعریف محسوسات کے بجائے متصورات پر رکھ دی۔ اس بات سے قطع نظرکہ حالی کی بیان کردہ تعریف کو ملٹن اور کولرج سے کوئی خاص واسطہ نہیں۔ حالی کی یہ تعریف شعریات کے نئے نئے باب کا آغاز کرتی ہے اور ان کا سب سے بڑا کارنامہ ہے۔ اب یہ اور بات ہے کہ ’’مقدمہ شعروشاعری‘‘ میں جن باتوں پر لوگوں نے سب سے کم دھیان دیا اور جن کا کوئی اثر نہ قبول کیا گیا، ان میں حالی کی بیان کردہ اصلیت کی تعریف سرفہرست ہے۔ حالی نے ’’اصلیت‘‘ کو یوں بیان کیا ہے (صفحہ ۷۱۔ ۷۲)،


’’اصلیت پر مبنی ہونے سے یہ مراد نہیں ہے کہ ہر شعر کا مضمون حقیقت نفس الامر پر مبنی ہونا چاہیے بلکہ یہ مراد ہے کہ جس بات پر شعر کی بنیاد رکھی گئی ہے وہ نفس الامر میں یا لوگوں کے عقیدے میں یا محض شاعر کے عندیے میں فی الواقع موجود ہو یا ایسا معلوم ہوتا ہو کہ اس کے عندیے میں فی الواقع موجود ہے۔ نیز اصلیت پر مبنی ہونے سے یہ بھی مقصود نہیں ہے کہ بیان میں اصلیت سے سرموتجاوز نہ ہو بلکہ یہ مطلب ہے کہ زیادہ تر اصلیت ہونی ضرور ہے۔ اس پر اگر شاعر نے اپنی طرف سے فی الجملہ کمی بیشی کر دی تو کچھ مضائقہ نہیں۔‘‘


حالی کو اس بیان کا یہ فائدہ تو ہوا ہی کہ انہیں غالب کی مدح وثنا کرنے میں کوئی زحمت نہ ہوئی۔ لیکن بجائے خود یہ بیان آب زر سے لکھنے کے قابل ہے، کیونکہ اس میں شعریات اور علم شرح HERMENEUTICS کے اکثر مسائل پوشیدہ ہیں اور اس کے ذریعہ تمام مشرقی کلاسیکی شعریات کی کنجی ہاتھ آتی ہے۔ افسوس کہ ’’مقدمۂ شعروشاعری‘‘ کے بیشتر مطالب خود حالی کے اس قول کی نفی کرتے ہیں اور یہی مطالب اثر انگیز ثابت ہوئے اور حالی کے بعد کی زیادہ تر شاعری ان کے منفیانہ خیالات کے زیر اثر مثبت راہ سے ہٹ گئی۔ حالی کا منفی اثر کتنا زبردست تھا، اس کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ کلیم الدین صاحب اصلیت کے بارے میں حالی کی بات بالکل نہ سمجھ سکے۔ انہوں نے خود لکھا ہے کہ ’’حالی کے دوسرے جملے کا مطلب میری سمجھ سے باہر ہے۔‘‘


اس وقت موقعہ نہیں کہ اصلیت کے بارے میں حالی کے خیالات کی شرح کرکے اس کے مضمرات بیان کیے جائیں۔ اس لیے اب میں ’’جوش‘‘ کی طرف رجوع ہوتا ہوں۔ یہاں بھی پہلی بات یہ ہے کہ ملٹن نے شاعری کو ریطوریقا کے مقابلے میں زیادہ PASSIONATE کہا تھا لیکن کولرج اور حالی نے کہا کہ ملٹن نے PASSION کو شاعری کا وصف ذاتی قرار دیا تھا۔ آکسفرڈ انگلش ڈکشنری (O.E.D.) کی رو سے ملٹن کے زمانے میں لفظ PASSIONATE اور PASSION جن معنی میں مستعمل تھے، ان میں سے حسب ذیل ہمارے مفید مطلب ہیں۔


Passion


Any kind of feeling by which the mind is powerfully affected or moved;
Cowley (1647): From hate, fear, hope, anger and envy free/And all the passions else that be. Sexual desire of impulse. Milton (1667): Sino’s daughters…/ whose
wanton passions in the sacred Porch Ezekiel saw.


PASSIONATE


2B. Of language etc: imbued with passion. Marked or characterized by strong emotion; expressive of strong emotion, impassioned.


Fuller (1665)... He made a passionate speech, to exhort; them to unite..


یہ بھی ملحوظ رہے کہ لفظ PASSION مسیح مصلوب کے کرب و صعوبت کے لیے بھی ہمیشہ مستعمل رہا ہے۔ یہ بھی دیکھ لیں کہ کولرج کے زمانہ میں PASSIONATE کے معنی MARKED BY ANGRY PASSION بھی تھے۔ یعنی اس لفظ کے معنی میں جو مفہوم سب سے زیادہ نمایاں ہے وہ جذبات سے مغلوب ہونے کا ہے۔ تھوڑا سا اشارہ درد و رنج کا بھی ہے۔ لیکن بنیادی طور پر اس کا تعلق انسان کے ان جذبات سے ہے جو شور و غوغا کی صورت میں نمودار ہوتے ہیں۔ کولرج PASSIONATE کی گول مول تعریف یوں کرتا ہے کہ وہ کلام جو محض معروضی نہ ہو، بلکہ جس میں ’’سچا انسانی احساس‘‘ شامل ہو۔ ظاہر ہے کہ اس سے کوئی بات نہیں بنتی۔ حالی پہلے تو یوں کہتے ہیں (صفحہ۶۸)،


’’اس سے صرف یہی مراد نہیں کہ شاعر نے جوش کی حالت میں شعر کہا ہو یا شعر کے بیان سے اس کا جوش ظاہر ہوتا ہو بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی ضرور ہے کہ جو لوگ مخاطب ہیں ان کے دل میں جوش پیدا کرنے والا ہو۔‘‘


اس بات سے قطع نظر کہ حالی نے جوش کی دو شرطیں بتائی ہیں (۱) جوش کی حالت میں شعر کہا ہو یا بیان سے شاعر کا جوش ظاہر ہوتا ہو اور (۲) مخاطب کے دل میں بھی جوش پیدا ہو۔ پہلی بات یہ دیکھنے کی ہے کہ حالی نے PASSION اور PASSIONATE کے تمام بنیادی پہلوؤں کو نظرانداز کر دیا ہے۔ دوسری بات دیکھنے کی یہ ہے کہ آگے چل کر حالی نے اپنی دونوں باتوں کو بھی نظرانداز کر دیا ہے۔ اب وہ کہتے ہیں (صفحہ۷۵)،


’’جوش سے مراد یہ ہے کہ مضمون ایسے بے ساختہ انداز اور مؤثر پیرائے میں بیان کیا جائے جس سے معلوم ہوکہ شاعر نے اپنے ارادے سے یہ مضمون نہیں باندھا بلکہ خود مضمون نے شاعر کو مجبور کرکے اپنے تئیں اس سے بندھوایا ہے۔‘‘


کلیم الدین صاحب نے پہلی غلطی تو یہ کی کہ PASSION اور جوش کو مترادف سمجھا۔ دوسری غلطی یہ کی کہ انہوں نے حالی کی تعریف کو ’’آمد‘‘ کے مترادف سمجھا۔ حالانکہ یہاں محض ’’آمد‘‘ اور ’’آورد‘‘ کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری مضمون آفرینی کی نفی ہو رہی ہے۔ سادگی، اصلیت اور جوش، ان تینوں اصطلاحوں میں سے سب سے کمزور تعریف حالی نے ’’جوش‘‘ کی بیان کی ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ یہ سب سے زیادہ مقبول ہوئی۔ برٹنڈرسل نے جب چینی تہذیب کا مطالعہ قریب سے کیا تو اس نے ایک بات یہ بھی معلوم کی کہ چینی اصول شعر کی روشنی میں ORIGINALITY کے مغربی اصول پر دوبارہ غور کرنا چاہیے۔ کیونکہ ORIGINALITY کا اصول چینی اصول شعر کی روشنی میں کوئی بہت معتبر نہیں معلوم ہوتا۔ اور یہ حالی نے مضمون سے بنانے کے عمل کو، جو ہماری شعریات کا بنیادی اصول ہے، اتنی آسانی سے مسترد کر دیا۔ آگے چل کر انہوں نے مضمون آفرینی پر اچھی بحث کی ہے (صفحہ ۱۵۰۔ ۱۶۴) ۔ لیکن اس کے پہلے (صفحہ ۸۶۔ ۸۹) انہوں نے غزل کے تمام مضامین کو سادگی، اصلیت اور جوش سے خالی بتاکر ترکی تمام کر دی ہے۔


لطف یہ ہے کہ وہ مضمون آفرینی کی سفارش بھی کرتے ہیں (صفحہ ۱۵۹۔ ۱۶۰)، اور مضمون آفرینی کو سراسر ’’ان نیچرل‘‘ بھی قرار دیتے ہیں۔ (صفحہ ۱۰۸۔ ۱۱۲) انہیں خوب معلوم ہے کہ مضمون پر فکر کیے بغیر مضمون ہاتھ نہیں آتا۔ لیکن (بلکہ شاید اسی وجہ سے) وہ ’’جوش‘‘ اور ’’نیچرل‘‘ شاعری کی سفارش کرتے ہیں۔ وہ چیز جسے آج کے نقاد بین المتونیت INTERTEXTNALITY کہہ کر اس پر حیرت کرتے ہیں، ہمارے یہاں کی مضمون آفرینی اس کی ایک شکل تھی۔ لیکن حالی اسے ’’میل کا بیل‘‘ کہتے ہیں۔ ’’الغرض جب پچھلے انہیں مضامین کو جو اگلے باندھ گئے ہیں، اوڑھنا بچھونا بنا لیتے ہیں تو ان کو مجبوراً نیچرل شاعری سے دست بردار ہونا اور میل کا بیل بنانا پڑتا ہے۔‘‘


یہاں وہ اس بات کو نظرانداز کر جاتے ہیں کہ مضمون کو وہ ’’ان نیچرل‘‘ پہلے ہی کہہ چکے ہیں۔ اب چاہے وہ اگلوں کا مضمون ہو یا پچھلوں کا، شاعری جب تک مضمون پر مبنی رہے گی، ’’ان نیچرل‘‘ ہی رہےگی۔ وہ اس بات کو بھی نظرانداز کر جاتے ہیں کہ اگلوں کے مضامین کو اوڑھنا بچھونا بنانا مضمون آفرینی نہیں ہے یا شاید وہ جان بوجھ کر ان باتوں سے صرف نظر کرتے ہیں۔ نتیجہ خاطر خواہ نکلتا ہے، کیونکہ ابھی چند دن ہوئے ایک صاحب نے ’’ہماری زبان‘‘ میں مضمون لکھا کہ غزل میں کوئی خوبی نہیں۔ اس کے سب مضمون خیالی ہیں اور اس کی باتیں ایسی ہیں جو شرافت سے عاری ہیں۔


حالی کے بڑے نقاد ہونے کی دلیل یہ ہے کہ انہوں نے بہت سی غلط باتیں کہیں لیکن وہ سب مقبول اور مؤثر ثابت ہوئیں۔ اور وہ باتیں ملٹن اور ’’ایک یوروپین محقق‘‘ کی سند پر تھیں، اس لیے ان کا صحیح سمجھا جانا لابدی تھا۔ لیکن ان کے مقبول اور مؤثر ہونے کی وجہ دراصل یہ ہے کہ ہم خود ان باتوں کو قبول کرنا چاہتے تھے۔ حالی کے خیالات تازہ ہوا کی طرح تھے۔ ان کے جھونکے میں پرانی باتیں اس لیے اڑ گئیں کہ وہ خود سوکھے پتوں کی طرح تتر بتر ہونے کو تیار تھیں۔