ایبسولیوٹلی ناٹ
برف کے 'کولے' آہستہ آہستہ فریج کے اوپر والے خانے میں اپنی جگہ پر واپس آنے کی کوشش کر رہے تھے مگر بٹ صاحب کے رکھوائے ہوئے 'پائے' انکی راہ میں سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے تھے۔ عید کو گزرے تین ہفتے گزر چکے تھے۔ کولوں کی یہ حالت دیکھ کر مجھے دکھ بھی ہو رہا تھا اور غصہ بھی آرہا تھا مگر بے بس تھا۔ اگر تو یہ پائے کسی اور دوست نے رکھوائے ہوئے ہوتے تو شاید اب تلک میں خود ہی چٹ کر چکا ہوتا مگر چونکہ یہ بٹ صاحب نے رکھوائے تھے لہٰذا اس خیال کو یکسر ذہن سے نکال دیا کیونکہ بٹ صاحب غصے کے ذرا تیز ہیں۔ انکے غصے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہیں گوشت سے شدید نفرت ہے لہذا جہاں کہیں نظر آئے بلاتفریق بڑا یا چھوٹا، فوراً سے پہلے سارے کا سارا 'ختم' کر دیتے ہیں۔
پہلے تو میں نے سوچا کہ چند دن مزید انتظار کر لیتا ہوں مگر جب صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا تو انہیں فون کر کے عرض کی کہ جناب آپ کا بکرا کل میرے خواب میں آیا تھا، اور پتا نہیں کیوں تھوڑا لنگڑا کر چل رہا تھا۔ یہ کہنے کی دیر تھی کہ بٹ صاحب شدید آگ بگولا ہوگئے اور کہنے لگے کہ دوست تو دوستوں کی خاطر جان قربان کر دیتے ہیں اور تم ہو کہ قربانی کے پائے نہیں رکھ سکتے۔
گزشتہ برس تو جیسے تیسے بٹ صاحب سے معزرت کرلی مگر جب اس عید پر گھر کی گھنٹی بجی اور نیچے بٹ صاحب کو کھڑے پایا تو دور سے ہی ' ابسولیوٹلی ناٹ' کی صدا بلند کردی۔
بٹ صاحب کے شوق دیکھ کر آپ کسی غلط فہمی کا شکار نہ ہوں کیونکہ وہ بہت آزاد خیال انسان ہیں۔ اک روز میں نے بٹ صاحب سے دریافت کیا کہ "آپ اتنا لبرل ہونے کے باوجود گائے کی بجائے "واٹر کولر" کی قربانی کیوں نہیں کرتے؟ "تو کہنے لگے کہ مجھے تو اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ بس قاری صاحب کا خیال آجاتا ہے کہ انہیں وقت پر کھال نہ پہنچی تو ناراض ہو جائیں گے اور مزید یہ کہ واٹر کولر کے ' پائے' بھی نہیں ہوتے۔
"زیادہ گوشت کھانے سے اٹھارہ ہزار افراد ہسپتال پہنچ گئے"، بٹ صاحب کو یہ خبر سنائی تو کہنے لگے : "پتا نہیں کب ہمارے اندر کا غریب مرے گا، لوگ تو گوشت کی طرف دیکھ کر پاگل ہی ہو جاتے ہیں، اتنا زیادہ گوشت ایک ساتھ کھانے کی کیا ضرورت تھی، بندہ 'فریج' میں رکھ لیتا ہے!!!"