روپ بدلے گا پھر اس کا چھل اور بھی

روپ بدلے گا پھر اس کا چھل اور بھی
دیکھ اے دل سنبھل تو سنبھل اور بھی


داغ آئے نظر ان کے دامن پہ کیا
وہ تو لائے ہیں گنگا سے جل اور بھی


خاک ہونا ہی عاشق کی معراج ہے
مثل پروانہ پہلے تو جل اور بھی


ان کا بچنا سمجھ لے تری موت ہے
ہیں سنپولوں کے پھن اور کچل اور بھی


صرف صحرا نہیں سبزۂ گل بھی ہیں
آرزوئیں جواں ہے تو چل اور بھی


شوق دیدار بڑھتا ہی جائے قمرؔ
لن ترانی تو سن کر مچل اور بھی