روح کی مانگ ہے وہ جسم کا سامان نہیں

روح کی مانگ ہے وہ جسم کا سامان نہیں
اس کا ملنا مجھے مشکل نہ ہو آسان نہیں


کوئی دم اور ہے بس خاک ہوئے جانے میں
خاک بھی ایسی کہ جس کی کوئی پہچان نہیں


ٹھیس کچھ ایسی لگی ہے کہ بکھرنا ہے اسے
دل میں دھڑکن کی جگہ درد ہے اور جان نہیں


بوجھ ہے عشق تو پھر کیسے سنبھالیں اس کو
دور تک ساتھ چلیں اس کا تو امکان نہیں


مختلف سمت بہائے لیے جاتا ہے ہمیں
وقت کے ساتھ ہمارا کوئی پیمان نہیں


فاطمہؔ درد کے رشتے سے کنارا کرنا
بے حسی کہہ لو اسے یہ کوئی نروان نہیں