روح احساس ہے تہی دامن
روح احساس ہے تہی دامن
دل ہے یا حسرتوں کا اک مدفن
پھیلتی جا رہی ہے تاریکی
شام محسوس کر رہی ہے تھکن
ملتفت جب سے ہے نظر ان کی
دل کو در پیش ہے نئی الجھن
میری یادوں سے گل بہ داماں ہے
ایک زہرہ جمال کا آنگن
آدمیت کہیں نہ ہو رسوا
زندگی کا بدل رہا ہے چلن
ہر ستارہ مرے مقدر کا
ان کے ماتھے کی بن گیا ہے شکن
لٹ چکا ہوں رہ تمنا میں
آرزو اب تو چھوڑ دے دامن
کس کو اپنا کہیں کہ اے ناصرؔ
ہر حسیں شخص ہے وفا دشمن