روداد خزاں
کیوں ٹیس سی دل میں اٹھتی ہے کیوں درد سے جی گھبراتا ہے
پہلے تو نہ تھا ایسا عالم اب دل کیوں ڈوبا جاتا ہے
چاہت سے کسی کی سیکھا تھا غم سہنا اور آنسو پینا
لیکن اب تو ہر اشک الم آنکھوں سے ٹپک ہی جاتا ہے
آداب محبت کی خاطر راحت غم کو سمجھے ہیں تو پھر
کیوں دل سے آہ نکلتی ہے کیوں چکر سا آ جاتا ہے
دنیا ہم سے آ کر سیکھے پابندیٔ رسم و راہ وفا
روداد خزاں دہراتے ہیں جب ذکر بہار آ جاتا ہے
اے شرم محبت جاگ کہ اب کچھ دیر نہیں رسوائی میں
پنہاں تھا جو دل کے پردے میں وہ درد زباں تک آتا ہے
اے کاش کوئی اس سے جا کر یہ حال دل برباد کہے
بیمار غم الفت تیرا ہے نزع میں دم گھبراتا ہے
اس طرح تڑپنے لگتا ہے رہ رہ کے دل ناشادؔ اکثر
جیسے کہ بگولہ اٹھتا ہے جیسے کوئی طوفاں آتا ہے