رو بہ رو سینہ بہ سینہ پا بہ پا اور لب بہ لب
رو بہ رو سینہ بہ سینہ پا بہ پا اور لب بہ لب
ناچتی شب میں برہنہ ہو گئے کیوں سب کے سب
خود کشی کر لی بھرے گلشن میں جس نے بے سبب
میں نے سیکھا ہے اسی ہم راز سے جینے کا ڈھب
ہنستے ہنستے روح کی آواز پاگل ہو گئی
گنبدوں کی خامشی نے دیر تک کھولے نہ لب
پی رہے ہیں خوشنما شیشوں میں لوگ اپنا لہو
اور کیا ہوگا انوکھے رنگ کا جشن طرب
اے محبت اب تو لوٹا دے مرے سجدے مجھے
مرتے دم تک زندگی کرتی رہی تیرا ادب
لاش سورج کی سیہ کمرے میں تھی لٹکی ہوئی
میرے گھر کا قفل کھولا شب کی تنہائی نے جب
پریمؔ تیری شاعری ہے یا مقدس جوئے شیر
تیشۂ تخلیق جس سے داد کرتا ہے طلب