روس یوکرائن جنگ اور مغرب کے بے نقاب ہوتے دوہرے معیارات
یوکرائن میں جیسے جیسے عام شہریوں کی ہلاکتیں بڑھ رہی ہیں، دنیا بھر کے لوگ امید اور دعا کر رہے ہیں کہ روس کی اپنے ہمسائے کے خلاف چھیڑی جنگ ختم ہو۔ کسی بھی لحاظ سے دیکھا جائے روس کا یوکرائن پر قبضہ عالمی قوانین اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق غیر قانونی ہی ہے۔ چاہے روس سیلف ڈیفنس کا دعویٰ ہی کیوں نہ کرے۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ نہ تو یوکرائن یا کسی اور ملک نے روس پر حملہ کیا ہے اور نہ اسے دھمکایا ہے بلکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔
اقوام متحدہ کے چارٹر کی پاسداری اس کے تمام 193 ممالک پر لازمی ہے۔ اس کی شق 51 کہتی ہے کہ اس چارٹر میں موجود کوئی بھی شق کسی کے بھی انفرادی یا اجتماعی خود کے تحفظ کے بنیادی حق سے انکار نہیں کرتی، اگر اس پر مسلح حملہ کیا جاتا ہے۔ 1974 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے قرارداد نمبر 3314 منظور کی۔ اس میں ہر قسم کے عسکری قبضے پر پابندی لگا دی گئی چاہے یہ تھوڑے عرصے کے لیے ہی کیوں نہ ہو۔ یہ قرارداد جنیوا کنوینشن اور اس کے پروٹوکولز کے پچیس سال بعد آئی تھی جن میں کہا گیا تھا کہ مقبوضہ اقوام کے پاس حق ہے کہ وہ اپنے قابضوں کے خلاف مسلح جدوجہد کر سکیں۔
صرف ان قوانین کی بنیاد پر ہی دیکھا جائے تو امریکہ اور یورپ یوکرائن کی مدد کو اسلحہ ہ بھیج کر عالمی قوانین کے مطابق ہی کاروائی کر رہے ہیں۔ جرمنی میں شائع ہونے والی رپورٹس بتاتی ہے کہ یورپی یونین نے یوکرائنی افواج کو اسلحہ ہ بہم پہنچانے کے لیے 503 ملین ڈالرز جاری کیے ہیں۔ اس اسلحہ ے میں فضائی دفاع کا نظام، اینٹی ٹینک ویپنز، اور بارود شامل ہے۔ متحدہ ہائے امریکہ بھی اپنی طرف سے اسلحہ بھیج رہا ہے۔ امریکہ 350 ملین ڈالرز کی عسکری امداد میں جیوالن اینٹی ٹینک میزائلز، سٹرنگر میزائلز، اینٹی آئرکرافٹ میزائلز اور دیگر چھوٹے موٹے ہتھیار و بارود بھیج رہا ہے۔
یورپی کمشن کے سربراہ Ursula von der نے کہا ہے کہ ہم یوکرائن کے لیے اپنی مدد بڑھا رہے ہیں۔ یورپی یونین پہلی دفعہ کسی ایسے ملک کے لیے ہتھیاروں کی خریداری اور ڈیلوری کو فنڈ کرے گا جو کہ حملے کی زد میں ہے۔ ہم کریملن کے خلاف پابندیان بھی مزید سخت کر رہے ہیں۔ انہوں نے یوکرائنی لوگوں کی استقامت کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اسے شاندار، متاثرکن اور سب کے لیے مہمیز قرار دیا۔
یہ سب چیزیں اپنی جگہ بالکل ٹھیک ہیں۔ مظلوم کی حمایت کو کسی عالمی قانون یا کنونشن کی نہ تو ضرورت ہوتی ہے اور نہ ہی ضرورت ہونی چاہیے۔
میں اس سب کی حمایت کرتا ہوں جو کچھ بھی یوکرائنی لوگوں کے لیے کیا جا رہا ہے۔ لیکن اس بات پر حیران ہوں کہ کیوں امریکہ اور یورپی یونین یوکرائن پر روسی حملے کے خلاف کھڑے ہونے اور ان کے مقابلہ کرنے کے بنیادی حقوق کی حفاظت میں اتنی پھرتی دکھا رہے ہیں۔ انہوں نے یہ پھرتی فلسطینیوں کے معاملے میں تو نہیں دکھائی جو 1948 سے اسرائیلیوں کے سفاکانہ قبضے کا شکار ہیں۔ میرا خیال ہے کہ میں یہ پوچھنے میں بالکل حق بجانب ہوں کہ کیوں یوکرائنی جو روسی افواج کا مقابلہ کر رہے ہیں، مغرب اور امریکہ کے ہیرو ہیں جبکہ اسی عمل کی وجہ سے تو فلسطینی دہشتگرد قرار دیے جاتے ہیں۔ کیوں یہ ممالک آج روس کے مقابلے کے لیے جدید اور جنگ کا پانسا بدل دینے والے ہتھیار بھیج رہے ہیں جبکہ فلسطین میں تو انہوں نے اس قسم کے ہتھیار اقابض اسرائیلی افواج کی امداد کے لیے بھیجے تھے۔
امریکہ اور یورپی یونین عسکری مزاحمت کی حمایت کو یہ کہہ کر جسٹیفائی کر رہی ہیں کہ روس عام معصوم شہریوں پر میزائل اور بم مار رہا ہے۔ لیکن کیا اسرائیل مقبوضہ فلسطین پر میزائل نہیں مارتا، وہاں بم دھماکے نہیں کرتا یا معصوم شہریوں کو قتل نہیں کرتا؟ بالکل کرتا ہے۔ لیکن اس وقت وشنگٹن یا برسلز سے جو زبان استعمال ہوتی ہے وہ بالکل ہی الگ ہوتی ہے۔ انہوں نے نہ ہی کبھی اسرائیل کے خلاف سخت اقدام کیا ہے اور نہ ہی اس پر کبھی پابندی لگانے کی بات کی ہے۔ جب بھی اسرائیل فلسطینیوں کے ہسپتال، گھر، اسکول اور آمد و رفت کے انفراسٹرکچر پر حملہ کرتا ہے تو امریکہ اور یورپی یونین صرف یہ کہتے ہیں کہ اسے اپنے دفاع کا پورا حق ہے۔ ان کے اس قسم کے دعووں کی بے معنویت ہر روز یوکرائن میں عیاں ہوتی ہے۔ کسی بھی مقبوضہ طاقت کو سیلف ڈیفنس کا حق نہیں جب لوگ اس کے خلاف مسلح مزاحمت کر رہے ہوں۔ اس قسم کے دفاع کا حق کہیں بھی عالمی قانون میں نہیں ملتا۔
مزید برآں اگر دیکھا جائے تو امریکہ اور یورپی یونین نہ صرف قابض اسرائیل کی حمایت کرتے ہیں اور فلسطینیوں کے خلاف ان کے جرائم کو دھو ڈالتے ہیں بلکہ اسرائیل کی ریاست اور ان کے زہریلے صہیونی نظریات کے خلاف تنقید کو بھی دباتے ہیں۔ حتیٰ کہ ان کے خلاف بی ڈی ایس جیسی پر امن تحاریک کو اینٹی سیمٹک قرار دے کر اسے چلانا قابل جرم قرار دے دیتے ہیں۔ امریکی و یورپی یونین کا یہ دوہرا رویہ اس بات کی کھلی عکاسی ہے کہ وہ عالمی قوانین کے اطلاق کے لیے مذہب اور نسل کو ضرور دیکھتے ہیں۔