روس یوکرین جنگ سے عالمی معیشت کس طرح متاثر ہوسکتی ہے؟
روس کا یوکرین پر حملہ جمعرات 24 فروری کو شروع ہوا، جس نے پہلے سے دگرگوں امریکی اور عالمی معیشت کو مزید خطرات سے دوچار کردیا ہے۔ صدر جو بائیڈن اور امریکی اتحادیوں نے روس پر پابندیاں عائد کر دیں ہیں لیکن اس کے باوجود امریکی صدربائیڈن نے واضح کیا کہ یہ پابندیاں روس کی عسکری اور اقتصادی صلاحیت کو طویل مدت میں متاثر کرسکیں گی لیکن ایک بڑا ٹارگٹ امریکا اور یورپ کو مستقبل قریب میں بڑے معاشی دھچکے سے بچانا ہے ۔
افراط زر کا مسئلہ: جنگ شروع ہوتے ہی دنیا بھر کے بڑے معاشی اشاریےجمعرات کی صبح ہی گر کر گزشتہ کئی مہینوں میں اپنی کم ترین سطح پر آگئے ، جمعہ کو ان اشاریوں میں البتہ کچھ بہتری نظر آئی ہے لیکن اس کے باوجود امریکہ اور عالمی معیشتوں کے لیے سنگین خطرات بدستور موجود ہیں۔ مثال کے طور پر اگر اور کچھ نہیں تو، یوکرین پر ایک طویل حملہ تیل کی قیمتوں میں ایک ہوش ربا اضافہ کر سکتا ہے کیونکہ روس کی طرف سے دنیا کو کچھ ناگزیر سپلائی کو روکنے کے زیادہ امکانات ہیں ۔ جمعرات کو تیل کی قیمت پر 100 ڈالر فی بیرل تک پہنچ گئی۔ اب یہ کم کر کے 91 ڈالرسے اوپر ہے جو 2014 کے بعد سے اب تک سب سے زیادہ ہے۔
اگرچہ توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتیں صارفین کے اخراجات کو کم کر سکتی ہیں، لیکن وہ عالمی افراط زر کی شرح کو 8فیصد سے اوپر لے جائیں گی۔ایورکور آئی ایس آئی کے وائس چیئرمین کرشنا گوہا کے مطابق اس جنگ سے کم از کم امریکہ میں افراط زر کا مسئلہ لازمی بڑھ جائے گا۔ گولڈمین کے جوزف بریگز اور ڈیوڈ میرکل کا کہنا ہے کہ جنگ کے نتیجے میں ہونے والی مہنگائی کے خطرے نے امریکہ سمیت دنیا بھر کو پریشان کردیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکی معیشت کو گزشتہ سرد جنگ کے بعد سے اس وقت سب سے زیادہ افراط زر کا سامنا ہے۔
توانائی کا عالمی بحران: امریکہ کی طرح یورپ کی معیشت بھی روس کی طرف سے فراہم کی جانے والے قدرتی گیس کی قیمتوں کے جھٹکے سے لرز اٹھی ہے ۔ لہذا متعدد یورپی ممالک کی مخالفت کے ساتھ، بائیڈن کے پاس فی الوقت اپنے حتمی معاشی ہتھیار کو ایک طرف رکھنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا، یعنی روس کو سوئفٹ انٹربینک میسجنگ سسٹم سے کاٹنا جو اس کی بیرون ملک ادائیگیوں میں سہولت فراہم کرتا ہے۔تاہم، کئی یورپی ممالک، حتیٰ کہ عام طور پر پوٹن کی حامی ہنگری کی حکومت بھی، مبینہ طور پر اب روس کو سوئفٹ سے الگ کرنے کی حمایت کر رہی ہے۔ اگرچہ ابھی تک صرف ایک امکان ہے، اس طرح کے اقدام سے روس کی معیشت کو شدید نقصان پہنچے گا۔ لیکن اس اقدام کے عالمی معیشت بالخصوص یورپ پر بھی اہم اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
یاد رہے کہ یورپ اپنی قدرتی گیس کی فراہمی کے 40فیصد کے لیے روسی پروڈیوسروں کو ادائیگی کے لیے سوئفٹ پر انحصار کرتا ہے۔ خدشہ ہے کہ روس کی قدرتی گیس کی برآمدات منجمد ہو سکتی ہیں اور دوسری طرف یورپ میں قدرتی گیس کی قیمتیں $40 فی ملین BTUs کے مقابلے میں قدرتی گیس سے مالا مال امریکہ میں تقریباً $5 فی ملین تک بڑھ گئیں۔ گیس کی یہ بڑھی ہوئی قیمتیں اگر برقرار رہیں تو یورپی معیشتوں کو کساد بازاری میں ڈال دیں گی، کیونکہ صارفین بل ادا کرنے کے لیے پہلے ہی مشکلات کا شکار ہیں ۔ اب ہوسکتا ہے کہ ان کے ساتھ ساتھ گاڑیوں کے مینوفیکچررز اپنی فیکٹریاں بند کرنے پر مجبور ہوجائیں۔ جرمنی نے پہلے ہی روس سے نورڈ اسٹریم 2 قدرتی گیس پائپ لائن کی فراہمی روک دی ہے کیونکہ یوکرین پر حملہ شروع ہو گیا ہے۔ اس نے یہ بھی کہا کہ وہ وقت کے ساتھ ساتھ روسی گیس سے خود کو چھڑانے کے لیے اقدامات کرے گا۔ لیکن جرمنی پر سخت پابندیوں کو قبول کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔
عالمی بنکنگ نظام کے لیے مسائل: سوئفٹ سسٹم کے بند ہونے کی صورت میں روس علاقائی تجارت کے لیے چین کے بہت چھوٹے CIPS پیغام رسانی کے نظام کو استعمال کر سکتا ہے، جس سے ممالک کو ایک دوسرے کے قریب لایا جا سکتا ہے۔ پھر بھی، یہ واضح نہیں ہے کہ ان میں سے کوئی بھی متبادل کتنا کارآمد ہوگا، اس لیے قیمتوں میں اضافے کا خطرہ یا کئی اہم اشیاء کی سپلائی میں خلل پڑنے کا اندیشہ بہرحال موجود رہے گا۔
زرعی اجناس کا بحران: اگرچہ روس کی عالمی اقتصادیات میں پوزیشن ایک بڑے گیس سپلائر کی ہے لیکن تیل اور گیس کے علاوہ روس اہم اجناس کی عالمی منڈیوں میں بھی بڑا شیئر رکھتا ہے۔ نیز اس جنگ سے یوکرین سے بھی گندم اور دیگر اجناس کی عالمی سپلائی متاثر ہوسکتی ہے۔ مثال کے طور پر سعودی عرب اور بعض دوسرے عرب ممالک یوکرین سے گندم خریدتے ہیں جو اس جنگ کے دوران متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ یاد رہے کہ روس اور یوکرین کی طرف سے گندم کی سپلائی عالمی منڈیوں کی کل سپلائی کا 25 فیصد ہیں جو ایک بڑا شیئر ہے۔
معدنیات اور ہیوی انڈسٹریز کے لیے مسائل: اسی طرح معدنیات کی عالمی سپلائی میں روس کا عالمی ایلومینیم کا 6فیصد اور نکل کی سپلائی کا 5فیصد حصہ تھا۔جنگ شروع ہوتے ہی جمعرات کو، ایلومینیم کی قیمتوں میں 3 فیصد سے زیادہ کا اضافہ ہوا اور یہ اب تک کی بلند ترین3,450 ڈالرفی ٹن تک پہنچ گئی، جب کہ نکل ایک دہائی سے زیادہ کی بلند ترین سطح 25,000 ڈالرفی ٹن رہی ہے۔ روس 35% پیلیڈیم اور 10% پلاٹینم سپلائی کو بھی کنٹرول کرتا ہےجو قیمتی دھاتیں ہیں اورخود کار اخراج کو کم کرنے کے لیے کیٹلیٹک کنورٹرز میں استعمال ہوتی ہیں ۔ہیوی انڈسٹریز یا بھاری مشینی صنعتوں میں استعمال ہونے والی ان بنیادی دھاتوں کا ذخیرہ کسی بھی ملک کے پاس بہت بڑا نہیں ہوتا اور ان کی مسلسل سپلائی سے ہی ان کا کام چلتا ہے لہٰذا یہ سپلائی متاثر ہونے سے ان صنعتوں کے بحران میں جانے کا اندیشہ ہے۔ مزید یہ کہ امریکی نیون سپلائی، جو کہ جدید لتھوگرافی چپ سازی کے عمل میں کلیدی ہے ، تقریباً مکمل طور پر روس اور یوکرین سے آتی ہے ۔
اختتامی طور پر یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ روس یوکرین جنگ کو جلد رکنا چاہیے۔ بصورت دیگر عالمی معیشت اس سے براہ راست یا بالواسطہ ضروری متاثر ہوگی اور کورونا وبا سے پہلے ہی گھبرائی اور پریشان دنیا کے لیے مزید مشکلات پیدا ہوں گی۔
(ترجمہ و تلخیص: ٹیم الف یار)