رموز بے خودی سمجھے نہ اسرار خودی سمجھے
رموز بے خودی سمجھے نہ اسرار خودی سمجھے
بڑی شے ہے اگر اپنی حقیقت آدمی سمجھے
ضیا اندر ضیا تنویر در تنویر ضو در ضو
کوئی آخر کہاں تک راز ہائے زندگی
نہیں ہٹتی نظر انجام عالم سے نہیں ہٹتی
اسے کوئی خودی گردان لے یا بے خودی سمجھے
بہت مشکل ہے اس معیار کی رندی زمانے میں
جو لغزش کو گنہ اور بے خودی کو زندگی سمجھے
جب احساس بلندی پست کر دیتا ہے فطرت کو
یہ مشکل ہے پھر انساں آدمی کو آدمی سمجھے
جنوں اک منزل بے نام کو طے کرتا جاتا ہے
کسے فرصت ہے جو سود و زیان زندگی سمجھے
ہمیں تو مدتوں سے جستجو ہے ایسے انساں کی
ہماری زندگی کو بھی جو اپنی زندگی سمجھے
جلا پاتی ہے اس سے روح دل بیدار ہوتا ہے
بڑی مدت میں ہم احسانؔ قدر مفلسی سمجھے