روز طوفاں کو گزارا میں کروں
روز طوفاں کو گزارا میں کروں
اور پھر گھر کو سنوارا میں کروں
ایک امید کا تنکا ہی سہی
خود کو اس سے ہی ابھارا میں کروں
منتظر ہے میرا سیلاب ابھی
اس کی ضد ہے کہ اشارہ میں کروں
دھوپ ہی دھوپ ہو تو مشکل ہے
کیسے سائے سے کنارہ میں کروں
مسئلہ اک دفعہ میں بس یہ ہے
دل تو چاہے گا دوبارہ میں کروں
میری خاموشی ندا ہے میری
ہر گھڑی خود کو پکارا میں کروں
میں کبھی ہار کے بھی جیتتا ہوں
وہ کبھی جیت کے ہارا میں کروں
زندگی کو تھما کے جام مے
زہر کو زہر سے مارا میں کروں
اب بھی کچھ باقی ہے تیرا میرا
کیوں نہ اس کو بھی ہمارا میں کروں