روز و شب کی کوئی صورت تو بنا کر رکھوں

روز و شب کی کوئی صورت تو بنا کر رکھوں
کسی لہجے کسی آہٹ کو سجا کر رکھوں


کوئی آنسو سا اجالا کوئی مہتاب سی یاد
یہ خزینے ہیں انہیں سب سے چھپا کر رکھوں


شور اتنا ہے کہ کچھ کہہ نہ سکوں گی اس سے
اب یہ سوچا ہے نگاہوں کو دبا کر رکھوں


آندھیاں ہار گئیں جب تو خیال آیا ہے
پھول کو تند ہواؤں سے بچا کر رکھوں


میرے آنچل میں ستارے ہی ستارے ہیں اداؔ
یہ جو صدیاں ہیں جدائی کی سجا کر رکھوں