روس اور یورپی ممالک کی مجبوریاں
مصنف: فرقان احمد
دنیا میں خود انحصاری وہ نعمت ہے جو جس میں جتنی زیادہ ہو ،اس کے حامل میں اعتماد اتنا ہی زیادہ نظر آتا ہے۔ پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ رب تعالیٰ نے اس دنیا کی جو بساط بچھائی ہے اس میں مکمل خود انحصاری کسی کو بھی نہیں دی۔ ہر شے اک دوجے پر انحصار کرتی نظر آتی ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ اگر کسی کو آنکھ حاصل ہے تو وہ ہاتھ کے لیے دوسرے پر انحصار کرتا ہے، کسی کو ہاتھ حاصل ہے تو وہ پاؤں کے لیے دوسرے پر انحصار کرتا ہے، اگر کسی کو پاؤں حاصل ہے تو وہ آنکھ کے لیے دوسرے پر انحصار کرتا ہے۔ بس اسی طرح کوئی پوری طرح نہ تو خود مختار ہے اور نہ ہی بالکل خالی ہاتھ۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دنیا کے ممالک اک دوجے کی ضرورت یا انحصار کو کمزوری کی طرح لیتے ہیں اور اسی قسم کی کمزوری و طاقت کی بنیاد پر خارجہ پالیسیاں تشکیل دیتے ہیں۔ روس اور یورپی خطے کے ممالک کے درمیان یہ بات بالکل کھل کر عیاں ہو جاتی ہے۔
یوکرائن کا تنازع ہو یا کوئی اور، دونوں طاقتیں اپنی اسی طاقت و کمزوری کی بنیاد پر ایک دوجے سے معاملات طے کرتی ہیں۔ یہی وہ عوامل ہیں جن کی وجہ سے روس نے آج تک یوکرائن پر کھل کر قبضہ نہیں کیا اور نہ ہی مغربی ممالک کریمیا کے قبضے کے دوران کھل کر روسی مخالفتر میں سینہ سپر ہوئے تھے۔
پہلے ذکر ہے روس کی کمزوری کا۔ روس کو ایک بہت بڑی نیول سٹریٹجک کمزوری کا سامنا ہے۔ اول تو اس کے پاس کوئی گرم پانیوں والی بندرگاہ نہیں ہے۔ اور جو اس کے پاس کریمیا کی وجہ سے ہے اس کے استعمال میں بھی روس کو ایک سٹریٹجک کمزوری کا سامنا ہے۔ اگر ہم نقشے پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ روسی جہازوں کو Sevastopol کی واحد گرم پانیوں والی بندرگاہ سے نکلتے ہی بحیرہ اسود سے بحیرہ روم تک رسائی کے لیے باسفورس سٹریٹس سے گزرنا پڑتا ہے۔ 1936 کے مونٹریکس کنونشن کے تحت ترکی کو باسفورس کا کنٹرول دے دیا گیا ہے۔ ترکی نیٹو کا ممبر ہے۔ گو کہ آج کل روسی بحری جہاز آبنائے باسفورس سے گزر سکتے ہیں، لیکن یہاں روس کے لیے پریشانی یہ ہے کہ نیٹو کے کسی رکن ملک سے تصادم کی صورت میں اس کا راستہ بڑی آسانی سے روکا جا سکتا ہے۔
باسفورس کو عبور کرنے کے بعد بھی روسیوں کو ایجیئن سی سے گزرنا ہوتا ہے تاکہ وہ بحیرہ روم تک رسائی حاصل کر سکے۔ یہاں بھی اسے نیٹو کے زیر اثر ممالک سے بنا کر رکھنا ہوتی ہے۔
پھر آبنائے جبرالٹر کو بحر اوقیانوس تک رسائی حاصل کرنے کے لیے، یا نہر سویز کو بحر ہند تک پہنچنے کے لیے استعمال کرنا ہوتا ہے۔ اس کے لیے بھی روس کو کئی ممالک پر انحصار کرنا ہوتا ہے۔
ایک اور تزویراتی مسئلہ یہ ہے کہ جنگ کی صورت میں روسی بحریہ بحیرہ بالٹک سے نہیں نکل سکتی۔ اس کی بڑی وجہ آبنائے Skagerrak ہے جو بحیرہ شمالی سے جا کر ملتا ہے۔ یہ تنگ سٹریٹ نیٹو کے ارکان کے زیر کنٹرول ہے۔ ان ارکان میں ڈنمارک اور ناروے شامل ہیں۔
کسی جنگ کی صورت میں ان سٹریٹجک کمزوریوں پر پھنسنے سے بچنے کے لیے روس تیزی سے کام کر رہا ہے۔ کریمیا کے الحاق کے بعد، جب سے گرم پانیوں والی بندرگاہ روسی قبضے میں آئی ہے، وہ سیواستوپول میں بحیرہ اسود کے بحری بیڑے کی تعمیر کر رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ
روسی اپنے شہر Novorossiysk میں ایک بندرگاہ بھی تعمیر کر رہے ہیں۔ ،روسیوں کو یہ بندرگاہ اضافی صلاحیت فراہم کرے گی۔ گو جنگ کے وقت موجودہ روسی بحری بیڑہ بحیرہ اسود سے باہر نکلنے کے لیے اتنا مضبوط نہ ہو، لیکن روسی کمپنیز تیزی سے اس کی کپیسٹی بڑھا رہی ہیں۔
اس کا مقابلہ کرنے کے لیے، اگلی دہائی میں ہم توقع کر سکتے ہیں کہ امریکہ اپنے نیٹو پارٹنر رومانیہ کو بحیرہ اسود میں بحری بیڑے کو بڑھانے کی ترغیب دے ۔
روس جہاں ان سب سٹریٹجک یا تذویراتی بحری کمزوریوں کا شکار ہے، تو ایسا نہیں ہے کہ اسے مغربی طاقتوں پر کسی قسم کی بالادستی حاصل نہیں۔ یورپی ممالک کے خلاف روس کے پاس سب سے بڑا ہتھیار گیس اور تیل ہے جس پر وہ جرمنی سمیت کئی اہم ممالک کو گھٹنے ٹکوا سکتا ہے۔ یورپ کی چالیس فیصد تک کی توانائی کی ضروریات یہی روس پورا کرتا ہے۔
روس قدرتی گیس کے دنیا کے سب سے بڑے سپلائر کے طور پر امریکہ کے بعد دوسرے نمبر پر ہے، اور یقیناً وہ اس طاقت کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ یورپ میں ایک روایت عام ہے۔ روس سے آپ کے تعلقات جتنے اچھے ہوں گے۔ آپ توانائی کے لیے اتنی کم ادائیگی کریں گے۔ مثال کے طور پر، فن لینڈ کے تعلقات روس سے خاصے بہتر ہیں۔ اسے بالٹک ریاستوں کے مقابلے میں روس سے توانائی کی بہتر ڈیل حاصل ہے۔ روس کی یورپ کی توانائی کی ضروریات پر اس طرح کی گرفت ہے، کہ یورپی ممالک نہ چاہتے ہوئے بھی روس پر انحصار کرنے لگتے ہیں۔ اس کے اثرات کو ختم کرنے کے لیے اقدامات جاری ہیں لیکن اب تک کوئی خاطر خواہ پیش رفت سامنے نہیں آ سکی۔ حالیہ دنوں میں یورپ میں توانائی کی قیمتیں اچانک اوپر گئیں۔ یورپی حکومتیں اپنا پورا زور لگانے کے باوجود، اپنی معیشت پر روسی اثرات کو کم نہیں کر پائیں۔ روسی اثرورسوخ سے متاثر، وہ ممالک سب سے زیادہ ہیں جو روس کے قریب ہیں اور انہیں اپنی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے مکمل طور پر روس پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔
لٹویا، سلواکیہ، فن لینڈ اور ایسٹونیا 100 فیصد روسی گیس پر انحصار کرتے ہیں، جمہوریہ چیک، بلغاریہ اور لتھونیا 80 فیصد انحصار کرتے ہیں، اور یونان، آسٹریا اور ہنگری 60 فیصد۔ جرمنی کی گیس کا تقریباً نصف روس سے آتا ہے، جو وسیع تجارتی معاہدوں کے ذریعے ہے۔ روس اور جرمنی کے درمیان آج کل نورڈک 2 گیس پائپ لائن ، جو کہ روس سے بذریعہ بحیرہ بالٹک جرمنی پہنچتی ہے پر تنازع خوب عالمی میڈیا میں ہیڈ لائنز لے رہا ہے۔ جرمنی کو توانائی کی ضرورت ہے۔ وہ اس پائپ لائین کے ذریعے اپنی ضروریات پوری کر سکتا ہے، لیکن اس سے اس کا انحصار روس پر بڑھتا ہے اور اس کی خارجہ پالیسی متاثر ہوتی ہے۔
پہلے ہی کہا جاتا ہے کہ جرمن سیاست دان برطانیہ جیسے ممالک کی نسبت کریمیا جیسے مسئلوں پر مزمت کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔
یہ ہیں وہ کمزوریاں اور طاقتیں جن کے تحت روسی و یورپی ممالک اک دوجے کے لیے خارجہ پالیسی تشکیل دیتی ہیں۔ ہر ملک کو اپنا مفاد عزیز ہے۔ لیکن یہاں تماشا یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنا مفاد بھی حاصل کرنا چاہتا ہے لیکن اپنی کمزوری بھی عیاں نہیں ہونے دینا چاہتا۔ کیونکہ اس سے اس کی خارجہ پالیسی کی خود مختاری متاثر ہوتی ہے۔ بس یہی تماشہ جاری ہے دنیا کے سٹیج پر۔ ہم اور آپ تو تماشائی ہیں، دیکھتے ہیں آگے آگے کیا ہوتا ہے۔