رونے کی یہ شدت ہے کہ گھبرا گئیں آنکھیں
رونے کی یہ شدت ہے کہ گھبرا گئیں آنکھیں
اشکوں کی یہ کثرت ہے کہ تنگ آ گئیں آنکھیں
دل سخت ہی کافر کا پر آنکھوں میں حیا ہے
سنتے ہی جفا کا گلہ شرما گئیں آنکھیں
محراب میں ہوتا نہیں مستوں کا گزارہ
ابرو کے تلے خوب جگہ پا گئیں آنکھیں
وہ طالب دیدار کے پاس آئیں مگر کیا
حیرت کا یہ عالم ہے کہ کوبا گئیں آنکھیں
فرہاد نے کیا دیکھ کے سر تیشے سے پھوڑا
سوجھا نہ کچھ اس رو سے کہ تہرا گئیں آنکھیں
دل دے کے رہا گریۂ خونی کا مجھے شغل
باقی تھا جگر سو اسے یوں کہا گئیں آنکھیں
چڑھتے نہیں اب میری نظر میں مہ و خورشید
دیکھا تجھے کیا میں نے کہ اترا گئیں آنکھیں
آ کر ترے کوچے میں نہ کچھ ہم سے بن آئی
جاتے ہوئے اک منہ تھا کہ برسا گئیں آنکھیں
اتنا بھی نہ سمجھے کہ بلاۓ دل و دین ہے
ناظمؔ تمہیں کیوں اس کی پسند آ گئیں آنکھیں