روایت

وہ بھی کیا زمانہ تھاجب پوربی علاقے میں لوگوں کے دل چڑیلوں اور پریوں دونوں سے بہ یک وقت آباد ہوا کرتے تھے ۔شیکسپئر علیہ السلام کاذکر صرف انگریزی کی درسی ریڈرمیں ہواکرتاتھا۔افسوس کج روی کے بارے میں ارشاداتِ عالیہ نہیں پائے جاتے ۔سوائے اس کے کہ اُسے نظر انداز کیا گیا یانفرت کی اساس پر دنیا دیاگیا ۔ دنیاسے جانے کے پھیر میں لپیٹ لپیٹ کے کچومر کیا گیا اور پُڑیوں میں باندھ باندھ کے بنیوں بقالوں کے سپرد کیاگیا۔ان بنیوں بقالوں سے ڈھیبوا،روغنی ،پائی پیسہ ۔روپلی یا مجموعی معنوں میں دمڑی اور چمڑی کو رواج دیا گیا۔اسکے ساتھ ہی یہ دیکھا جانے لگا کہ چمڑی جانے لگی اور دمڑی دنیا میں رہنے لگی۔البتہ اس رواج سے ایک تصور کرید نکالا گیاکہ بینک کی بنیاد عور ت نے رکھی تھی اور سرِ راہ ذاتِ مرد سے منسلک ہوگئی یا چپک گئی اور یہ بتانا مشکل ہوا کہ تانبے کے پیسے کے بیچ چھید کیوں کیا گیااور عورت کی ناک کیوں چھیدی گئی !اگر اس میں کوئی قدرِ مشترک تھی تو کیوں تھی؟ اور اس خرابے سے قبرستان یا مرگھٹ کتنی دور تھا۔ تب محبت کیا اتنی ابھاگن تھی کہ کسی کو اپناہدف نہیں بناسکتی تھی ۔وہ بھی کیا رات تھی کہ لگاتارپانی برس رہا تھا اور ہمارے گاؤں کی آسیہ نامی لڑکی اسی رات مرگئی تھی اور اسی رات اسے دفن کرنے کے بارش میں آدھی ڈوبی ہوئی قبر میں دفن کیاگیا۔ کاش وہ مرنے سے پہلے کسی سوکھے گیلے مرد کا چہر ہ دیکھ چکی ہوتی اور جی بھرکرمل چکی ہوتی ۔یہاں ذرا نظر کیجئے کہ اس زمانے میں مرد کی ذات کیسی رہی ہوگی۔مثلاً کوئی مرد عرصۂ دراز تک کثرتِ زنا کا مرتکب ہورہا ہو اور پھر اچانک اس کی مردمی کم ہونے لگی ہو تو اُس نے دواؤں کااستعمال شروع کیا ہو،پھر کیا کوئی اندازہ کرسکتاہے کہ اصل زمانۂ مردمی میں کیا فرق رہا ہوگا! محبت اگر کسی دل کا نام تھا تو اس کی تلاش میں کیا کوئی مائی کا لال نکلا ہوگا !حاتم طائی کا کوئی چیلا تو نہیں ہوگا پھر بھی جو لوگ چار پانچ کوس پیدل چل لیتے تھے وہ کسی نہ کسی انجانی کھوج میں نکلے تو ہوں گے ۔ انہیں اگر کچھ ملا بھی ہوگا تو کیا ملا ہوگا ! اماں کی ناک کی کیل تو کہیں نہیں ملی ہوگی ۔پھر بھی یاد نہیں آتا کہ ابا میاں نے دوسری شادی کب کی تھی۔صرف اس سے جڑا ہو ا وقوعہ یاد ہے کہ اماں کی ڈوبتی ہوئی آواز میں بدنصیب لڑکے نے شہد ٹپکایا تھا،و ہ شہد جو بل سنگھ پور کے جنگل کے کسی خاص پیڑ سے اتار کے لایا گیا تھا۔ یہ شہد اتار کے لانے والے اصغر نانا ہی تو تھے اور یاد رہے کہ انہوں نے ہی اماں کو قبر میں اتارا تھا ۔ یا یوں کہاجائے کہ یہ ایک ایسی محبت کو قبر میں اتارنے کا منظر تھا جسے خدا اور خداکے بنائے ہوئے آدمی ہی دیکھ رہے تھے ۔ یہاں کچھ ایسا یاد آتاہے کہ وہیں پاس ہی سگوا نام کی ایک برساتی گڑھئی تھی جس میں کئی نوعمر لڑکے ڈوب گئے تھے ۔وہ بھی جس دن ڈوبنے کو تھا تو اسے ایسا لگا کہ پانی کی تہہ میں کوئی ڈبوا نام کی مخلوق رہی ہوگی۔اس کے بعد تو ایک عرصہ بیت چکا تھا۔بانسپار والے بانسوں کے جھنڈے گھاگھر ااور سرجو ندی کا علاقہ بھاگل پور بھٹنی ،گونڈا اور بہرائچ اور نان پارہ کی آبادیاں تھیں ۔جبکہ ٹرین سے سفرکرتے ہوئے ’’آگ کا دریا‘‘ کی مصنف قرۃ العین حیدر کوبہرائچ کے مضافات خوب نظر آئے تھے ۔ظاہر ہے یہ قصہ کچھ جیتے ہوئے زمانے کا ہوگا جب سنجوگ سے باپ بیٹی اور بیٹی کے لمس سے آشنا جلاوطن لڑکا تینوں بھاپ سے چلنے والے انجن کے پیچھے ریل گاڑی میں سوار چلے جاتے تھے۔البتہ معلوم نہیں سرجو کہاں تھی۔گھاگرا ندی کا علاقہ تو بہت پیچھے کہیں چھوٹ گیا تھاسوائے اس کے لڑکے نے لڑکی کی چنٹوں والی نیم گیلی نیم سوکھی اس مجاّ میں انگلی ڈبو رکھی تھی ،مزہ تو آرہاتھا مگر اس مزے میں مرنے والوں کی حسرت ناکی بھی یاد آرہی تھی ۔ وہ شہد یاد آرہا تھا جو اس نے اماں کی ڈوبتی ہوئی آواز میں ٹپکایا تھا گویا کبھی نہ سمجھ میں آنے والی محبت کا تعاقب جاری تھا جب نہ کوئی سلسلۂ نقش بندی تھا ،نہ چشتیہ تھا۔ابامیاں کے بارے میں اتنا ہی سنا تھا کہ وہ شہر گورکھ پور میں دستر خوان پر حسین احمد مدنی کی جوٹھی کڑکڑی ہڈی والی بوٹی عقیدت میں چباتے ہوئے مرید ہوگئے تھے ۔البتہ اس کے کچھ ہی دنوں بعد انہوں نے فتح پور تال رتوئے والے میدان (جس میں کچھ سال گزرے ایک غیر ملکی ہوائی جہاز گر کر تباہ ہوگیاتھا)کے قریبی گاؤں میں ایک گہرے سانولے رنگ کی عورت سے شادی کرلی تھی ۔ممکن ہو اس شادی کا ارادہ انہوں نے اہرامی ناک والی اماں کے مردہ چہرے پر موت کی آخری جھلک دیکھ کر کیا ہوگا۔یہاں یاد آٹا ہے کہ کیا وہ میں ہی تھا یا کیا وہ میں نہیں تھا !