رشتۂ رسم محبت مت توڑ
رشتۂ رسم محبت مت توڑ
توڑ کر دل کو قیامت مت توڑ
کام ناکامی بھی اک کام سہی
توڑ امید کو ہمت مت توڑ
رات فرقت کی پڑی ہے اے دل
ایک ہی نالے میں طاقت مت توڑ
اس کی رحمت کو نہ بے کار سمجھ
مے و میخانے کی نیت مت توڑ
دیکھ اچھی نہیں یہ خر مستی
ساغر بادۂ فرصت مت توڑ
اے دل امید رہائی مت باندھ
اور آفت سر آفت مت توڑ
پوچھ مت لذت مے اے واعظ
جانور دام شریعت مت توڑ
صحن مسجد کو کیے جا پامال
قید آئین طریقت مت توڑ
مے کدہ دیکھ کے جنت کو نہ بھول
حرص سے بند قناعت مت توڑ
اس کا احسان اٹھانا ہے ہمیں
گردن اے بار ندامت مت توڑ
اے قلقؔ بت کدے میں باندھ احرام
ہم سے للہ رفاقت مت توڑ