بھارت کا تاج برطانیہ پر قبضہ: رشی سوناک کی وزارت عظمیٰ کی اصل کہانی
اسے حسن اتفاق کہیے یا کچھ اور برطانیہ کے اس وقت کے حالات تو پاکستان جیسے چل رہے ہیں لیکن وہاں وزیر اعظم بھارتی نژاد آ گئے ہیں۔ معاشی بحران ہے اور پاکستان کی طرح حزب اختلاف لیبر پارٹی کا انتخاب کروانے کا دباؤ بھی۔ سرویز بتا رہے ہیں اس وقت لیبر پارٹی عوام میں مقبول ہے۔ لیکن ہمارے ہاں برسراقتدار پارٹیوں کی طرح کنزرویٹو کہتے ہیں نہیں بھئی ہم مدت پوری کریں گے۔ ایک چیز جو پاکستان سی نہیں ہے وہ رجیم چینچ نہیں ہے۔ وہاں دو ماہ کے دوران ایک ہی پارٹی کا تیسرا وزیر اعظم ہے۔ بورس جانسن، لزٹرس اور اب رشی سوناک۔
رشی سوناک کون ہیں؟
رشی سوناک برطانیہ کی کنزیرویٹو پارٹی کے بھارتی نژاد رکن پارلیمان ہیں، جو سابقہ وزیر اعظم بورس جانسن کے دور میں وزیر خزانہ تھے۔ برطانیہ میں وزیر خزانہ کو چانسلر کہا جاتا ہے۔ کرونا کے دوران ان کی فرلو اسکیم خاصی مشہور ہوئی۔
سوناک کے بھارت سے تعلق کی بات کریں تو بی بی سی کے مطابق رشی سوناک کے والدین مشرقی افریقہ سے برطانیہ آئے۔ سوناک کے والدین بھارت سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ 1960 کی دہائی میں اس وقت برطانیہ آئے جب بہت سے لوگ برطانوی سابقہ نوآبادیات سے جوق در جوق برطانیہ آ رہے تھے۔ برطانیہ کی ویزا پالیسی نرم تھیں، چونکہ اسے دوسری عالمی جنگ کے بعد برطانیہ کی تعمیر نو کے لیے افرادی قوت درکار تھی۔
سوناک 1980 میں برطانوی شہر ساؤتھ ایمپٹن میں پیدا ہوئے۔ 2015 میں پہلی بار رکن پارلیمان منتخب ہوئے۔ ان کی شریک حیات بھارتی ارب پتی کی بیٹی ہیں۔
رشی سوناک کیسے وزیر اعظم منتخب ہوئے؟
رشی سوناک بورس جانسن کے ساتھی تھے شاید اسی لیے اب کی بار جب وزیراعظم کی دوڑ لگی تو جانسن سوناک کے حق میں دستبردار ہوگئے۔ کنزرویٹو پارٹی میں موجود جانسن کے حامیان نے بھی سوناک کا ساتھ دیا۔ سوناک ستمبر میں بھی وزیر اعظم بننے کی ریس میں تھے۔ لیکن لز ٹرس سے مات کھا گئے۔ پر لز ٹرس نے جو برطانیہ کو معاشی بحران سے نکالنے کا ٹیکس کٹوتی منصوبہ دیا وہ کسی کو پسند نہ آیا۔ یہاں تک کہ بہت سے ماہرین معیشت تشویش میں مبتلا ہو گئے کہ اگر ٹرس نے یہ منصوبہ نافذ کیا تو برطانیہ شدید معاشی بحران میں گھر جائے گا۔ لز ٹرس نے منصوبے کو نافذ کرنے کے لیے اپنے وزیر خزانہ پر دباؤ بڑھایا تو وہ ہاتھ کھڑے کر گیا۔ ٹرس نے انہیں فارغ کر دیا۔ پھر اچانک لز ٹرس کے وزیر داخلہ نے اور ایک آدھ اور وزیر نے استعفیٰ دیا تو ٹرس سمجھ گئیں پارٹی ختم ہوئی۔ برطانیہ کی تیسری خاتون وزیر اعظم مستعفی ہوئیں اور وزارت عظمیٰ کا قرعہ رشی سوناک کے نام نکلا۔
ان کے انتخاب کی خوشی برطانوی عوام کو ہو نہ ہو، بھارت کو ضرور ہے۔ برطانیہ میں کوئی پہلی بار ایشیائی اور بھارتی اوریجن سے بنا ہے۔ ستمبر میں جب رشی سوناک لز ٹرس سے انتخاب ہارے تھے تو بھارتیوں کا دل بھی بہت ٹوٹا تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ مشہور بھارتی صحافی اور دا پرنٹ کے چیف ایڈٹر ادرش گپتا نے ایک ویڈیو میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ برطانیہ کی کنزرویٹو پارٹی کی ایک روایت ہے: وزیراعظم بننے کی ریس میں جو سب سے کم عقل ہوتا ہے وہ اسے وزیراعظم بنا دیتے ہیں۔ ازراہ مذاق ان سے سوال ہے۔ اب تو کنزرویٹو پارٹی نے ایک بھارتی نژاد وزیر اعظم بنا دیا ہے۔ ان کے بارے میں کیا خیال ہے؟