رندوں کو ترے آرزوئے خشک لبی ہے
رندوں کو ترے آرزوئے خشک لبی ہے
اب اے نگہ مست تو کیا ڈھونڈ رہی ہے
منسوخ ہے اس دور میں ہر رسم گریباں
اب مشغلۂ اہل جنوں سینہ زنی ہے
شہزادۂ معنی کوئی آئے تو جگائے
شاعر کا تخیل بھی تو خوابیدہ پری ہے
مدت سے تھی آوارہ وہ پہنائے فضا میں
خاک رہ انجم جو مرے سر پہ پڑی ہے
ہر خار ہے غلطیدہ بہ خوں دشت وفا میں
اے سنگ رہ یار کسے ٹھیس لگی ہے