رند منسوب بہر کیف رہا جام کے ساتھ
رند منسوب بہر کیف رہا جام کے ساتھ
ذکر آ جاتا ہے اپنا بھی ترے نام کے ساتھ
دل نے احساس تباہی کو پنپنے نہ دیا
جام گردش میں رہا گردش ایام کے ساتھ
زندگی کو کبھی ترتیب میسر نہ ہوئی
رخ بدلتے رہے حالات ہر اک گام کے ساتھ
آپ تو آپ زمانہ ہے گریزاں ہم سے
کون رکھتا ہے تعلق کسی بدنام کے ساتھ
ہوش کو فرصت احساس کہاں باقی تھی
آنکھ چلتی رہی ساقی کی ہر اک جام کے ساتھ
مشغلہ کوئی نہیں بادہ گساری کے بغیر
ایسا مانوس ہوا دل نگہ و جام کے ساتھ
شامل حال رہیں ان کی جفائیں مظہرؔ
زندگی ورنہ گزرتی مری آرام کے ساتھ