رکشے والا
دیکھو غریب کتنی زحمت اٹھا رہا ہے
گلیوں میں بھیڑ والی رکشا چلا رہا ہے
محروم ہے اگرچہ دنیا کی نعمتوں سے
ہر بوجھ زندگی کا ہنس کر اٹھا رہا ہے
برسات میں بھی دیکھو پھرتا ہوا سڑک پر
رکشا بھی بھیگتا ہے خود بھی نہا رہا ہے
گرمی کی دھوپ میں بھی رکتا نہیں ہے گھر میں
پر پیچ راستوں کے پھیرے لگا رہا ہے
سردی سے کانپتا ہے کپڑے پھٹے ہوئے ہیں
ٹھنڈی ہوا سے خود کو کیسے بچا رہا ہے
مستی میں دوڑتا ہے رکشا لیے سڑک پر
نغمہ کوئی سریلا اب گنگنا رہا ہے
رکشے کے پیڈلوں پر رکھے ہیں پاؤں دونوں
آنکھیں ہیں راستے پر گھنٹی بجا رہا ہے
ماں باپ منتظر ہیں گھر پر سبھی کے عادلؔ
بچوں کو اب وہ لینے اسکول جا رہا ہے