ریزہ ریزہ جیسے کوئی ٹوٹ گیا ہے میرے اندر

ریزہ ریزہ جیسے کوئی ٹوٹ گیا ہے میرے اندر
کون ہے سیدؔ کرب جو اتنے جھیل رہا ہے میرے اندر


اجڑی اجڑی خواب کی بستی صحرا صحرا آنکھیں میری
جانے یہ طوفان کہاں سے آج اٹھا ہے میرے اندر


خاموشی سے جھیل رہی ہے گرمی سردی ہر موسم کی
مجبوری کی چادر اوڑھے ایک انا ہے میرے اندر


آج نہ جانے کیوں لگتا ہے دل کا موسم نکھرا نکھرا
فصل جنوں کا مہماں بن کر کون رکا ہے میرے اندر


زلف کے سائے خواب کی منزل راس اسے کیا آئے گی اب
صحرا صحرا خاک جو کب سے چھان رہا ہے میرے اندر


آج بھی جانے کیوں لگتا ہے اتنا ہی انجان سا کچھ وہ
جس نے سارے دکھ سکھ بانٹے ساتھ رہا ہے میرے اندر


کب سے کھڑا میں سوچ رہا ہوں ایماں کے دوراہے پر یہ
ایک تو وہ جو سب کا خدا ہے ایک خدا ہے میرے اندر