ریاست مدینہ کی پیروی کا مطلب

مدینہ طیبہ سے مماثلت پیدا کرنے کا مفہوم کہیں یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ ہم ظاہری اشکال میں مماثلت پیدا کرنا چاہتے ہیں اور دنیا اس وقت تمدن کے جس مرتبے پر ہے اس سے رجعت کر کے اس تمدنی مرتبے پر واپس جانے کے خواہش مند ہیں جو عرب میں ساڑھے تیرہ سو برس پہلے  تھا۔

اتباع ِرسول ﷺ  و اصحاب کا یہ مفہوم ہی سرے سے غلط ہے، اور اکثر دین دار لوگ غلطی سے اس کا یہی مفہوم لیتے ہیں۔ ان کے نزدیک سلف صالحین کی پیروی اس کا نام ہے کہ جیسا لباس وہ پہنتے تھے ویسا ہی ہم پہنیں،جس قسم کے کھانے وہ کھاتے تھے اسی قسم کے کھانے ہم بھی کھائیں،جیسا طرز معاشرت ان کے گھروں میں تھا بعینہٖ وہی طرز معاشرت ہمارے گھروں میں بھی ہو۔تمدن و حضارت کی جو حالت ان کے عہد میں تھی اس کو ہم بالکل متحجر  صورت میں قیامت تک باقی رکھنے کی کوشش کریں،اور ہمارے اس ماحول سے باہر کی دنیا میں جو تغیرات واقع ہو رہے ہیں ان سب سے آنکھیں بند کر کے ہم اپنے دماغ اور اپنی زندگی کے ارد گرد ایک حصار کھینچ لیں جس کی  سرحد میں وقت کی حرکت اور زمانے کے تغیر کو داخل ہونے کی اجازت نہ ہو۔اتباع کا یہ تصور جو دور انحطاط کی کئی صدیوں سے دین دار مسلمانوں کے دماغوں پر مسلط ہے درحقیقت روح اسلام کے بالکل منافی ہے ۔

اسلام کی یہ تعلیم  ہرگز نہیں ہے کہ ہم جیتے جاگتے آثار قدیمہ بن کر رہیں،اور اپنی زندگی کو قدیم تمدن کا ایک تاریخی ڈراما بنائے رکھیں۔وہ ہمیں رہبانیت اور قدامت پرستی نہیں سکھاتا۔اس کا مقصد دنیا میں ایک ایسی قوم پیدا کرنا ہے جو تغیر و ارتقا کو روکنے کی کوشش کرتی رہے، بلکہ اس کے بالکل برعکس وہ ایک ایسی قوم بنانا چاہتا ہے، جو تغیر و ارتقا کو غلط راستوں سے پھیر کر صحیح راستے پر چلانے کی کوشش کرے۔

 وہ ہم کو قالب نہیں دیتا بلکہ روح دیتا ہے، اور چاہتا ہے کہ زمان و مکان کے تغیرات سے زندگی کے جتنے بھی مختلف قالب قیامت تک پیدا ہوں ان سب میں یہی روح بھرتے چلے جائیں۔مسلمان ہونے کی حیثیت سے دنیا میں ہمارا مشن یہی ہے۔

ہم کو خیر امت جو بنایا گیا ہے تو اس لیے نہیں کہ ہم ارتقا کے راستے میں آگے بڑھنے والوں کے پیچھے عقب لشکر  (rear guard ) کی حیثیت سے لگے رہیں،بلکہ ہمارا کام امامت و رہنمائی ہے۔

ہم مقدمۃ الجیش بننے کے لیے پیدا کیے گئے ہیں اور ہمارے خیر امت ہونے کا راز  "اخرجت  للناس  "میں پوشیدہ ہے۔

 

 

یہ تحریر ، 1937ء میں لکھے گئے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ کے ایک مضمون بہ عنوان

مرض اور اس کا علاج"  میں سے ایک  اقتباس ہے