ریشم کے ریشے

پرانی بس کا ہینڈل پکڑ کر میں اس میں سوار ہوا۔ مجھے معلوم تھا وہ تیس کلو میٹر کاسفر ڈیڑھ گھنٹے میں طے کرے گی لیکن اور کوئی راستہ ہی نہیں تھا۔ کندیاں سے میانوالی تک کڑاک خیل ٹرانسپورٹ کی اجارہ داری تھی۔ بس کندیاں موڑ پندرہ منٹ قیام کرتی اور ہاکر اتر کر میانوالی ملتان روڈ پر نظریں جمائے ملتان بھکر، کلورکوٹ، پپلاں اور چکوک کی جانب سے آنے والی بسوں اور ہرویگن کاانتظار کرتا اور ان میں سے سواریاں اترنے پران کی طرف لپکتا۔ کندیاں موڑ پر کڑاک خیل بس سروس کاایک منیجر جس کی مونچھیں نوکیلی اورچہرہ کرخت تھا وہ کسی بھی سواری کو تانگے، یا مال بردار ڈالیخ پر سوار نہ ہونے دیتا۔ سر پٹھول اس اڈے کا معمول تھا۔
میں رینگتی بس میں گردوپیش کے منظروں سے لطف اندوز ہوتا عطا اللہ عیسٰی خیلوی کی آواز میں گیت سن رہا تھا۔
کوئی گڈی دیاں دو لیناں
جتھے ماہی یاد آوے اتھے بیٹھ کے رو لیناں
میانوالی اڈے پر اتر کر میں نے ریلوے اسٹیشن کراس کیا اور نانبائی بازار کی جانب مڑ گیا۔ کھوے سے کھوا چھل رہا تھا۔ مجھے گروبازار سے گزر کر کلوریاں والی گلی میں جانا تھا۔
’’ریشماں والی گلی میں ایک دکان ہے کشیدہ کاری کی۔۔۔ اور کلوریاں والی گلی!‘‘
ریشماں والی گلی کا نام میرے لیے مانوس نہ تھا تاہم کلوریاں والی گلی میرے دھیان میں آتے ہی ایک مہک سے جڑ گئی تھی۔
میں ایک مدت بعد یہاں آیا تھا اسی بیچ والے عرصہ میں بہت کچھ بدل گیا تھا لیکن کلوریاں والی گلی کے ساتھ ریشماں والی گلی کا اجنبی نام آیا تو عین اسی سمے اس کی نامانوسیت معدوم ہوچکی تھی کہ اس کے ساتھ میرا بچپن جڑاہواتھا۔ تب میں گئو شالہ پرائمری سکول میانوالی میں پانچویں کا طالب علم تھا اور میں اسی گلی سے ہو کر گزرا کرتا تھا۔
کشیدہ کاری کی دکان سے مجھے ایک سوٹ لینا تھا۔
کلوریاں والی گلی تک میں اپنے بچپن کی انگلی تھام کر پہنچ گیا اس گلی میں داخل ہو کر مجھے یوں لگاکہ کچھ بھی نہ بدلا تھا۔ مانوس دیوار و در سے جا چکے وقت نے پلٹ پلٹ کرمجھے بلانا اور بہلانا شروع کردیا تھا۔ میں گلی کے اندر دور تک گھستا چلا گیا حتیٰ کہ مسجد لوھاراں کے بغل میں موجود حافظ والی ہٹی آگئی جہاں سے ٹافیاں، بتاشے، ریوڑیاں، ٹانگری ، اور مونگ پھلی لینا معمول تھا۔ یہیں قلفی والی ریڑھی لگا کرتی جوشام ڈھلنے تک گلی میں موجود رہا کرتی تھی۔اس ریڑھی سے ہم ایک آنہ، دو آنہ کی قلفیاں لیا کرتے تھے۔ کچھ آگے نکڑ پر منیاری کی دکان تھی اور پھر وہ مکان جہاں سے روزانہ شام ، میں نانی اماں کے کہنے پر میں دودھ لایا کرتا تھا۔
اس سے آگے بھی گلی کلوریاں چلتی تھی مگر میں ایک مہک کی گرفت میں آگیا تھا جو یہاں آتے ہی میرے تعاقب میں تھی۔ بھیڑ کے اندر جس میں، میں گھسا ہوا یہاں تک پہنچ گیا تھا، ایک جھپاکے کے اندر سے اس مانوس مہک کو اٹھتا اور بھیڑ کے اندر گم ہوتا دیکھ رہا تھا۔ اب میں اس کے تعاقب میں تھا۔ ادھڑے وقت کے سارے رخنے جیسے اس مہک نے پاٹ دئیے تھے۔ مہک معدوم ہوگئی یاپھروہ گلی ختم ہو گئی تھی جو دھرم شالہ کے پاس پہنچ کر کھل جاتی تھی۔
کھلی گلی کے اجالے نے مجھے چونکایا تومجھے احساس ہوچکا تھا کہ میں بہت آگے نکل آیا تھا۔ آ گے نہیں، بہت پیچھے۔
میں نے اپنے قدموں پر گھوم گیا۔ عجلت مجھے آگے کو کھینچتی تھی کہ ہزار کام تھے جو نمٹانا تھے۔۔۔ میں نے ایک راہ گیر سے پوچھا۔
’’بھائی ریشماں والی گلی کون سی ہے۔۔۔؟‘‘
’’یہ سامنے ریشماں والی ہی تو ہے‘‘۔
’’اور کلوریاں والی۔۔۔؟‘‘
’’وہ اس کے ختم ہوتے ہی شروع ہوجائے گی‘‘۔
مجھے یاد آیاکہ آتے ہوئے مجھے بتایا گیا تھا کہ جب کلوریاں والی گلی ختم ہو گی توریشماں والی گلی نے آجانا تھا۔
جہاں میں تھا وہاں سے بتائی گئی حقیقت اوندھی ہوگئی تھی۔
پہلے جس گلی کو جہاں ختم ہوناتھا وہ وہاں سے شروع ہورہی تھی اور شروع ہونے والی ختم۔
جب میں ریشماں والی گلی میں پھرسے داخل ہواتومجھے یہ تخمینہ لگانے میں دیر نہ لگی تھی گلی کایہ حصہ جو پہلے کلوریاں والی گلی ہی تھا منیاری کپڑے اور درزیوں کی غیر معمولی دکانوں کی تعداد زیادہ ہو جانے سے ریشماں والی گلی ہوگیا تھا۔
میں بچپن کی گرد جھاڑتا اپنا نام بدل لینے والی گلی کے وسط میں موجود کشیدہ کاری کی دکان میں داخل ہوگیا۔
زگ زیگ مشین پردکاندار اپنے کام میں مگن تھا۔ میں نے ہاتھ ملایا تعارف کرایا اور بیٹھ گیا۔ اسے وقت پیچھے دھکیلنے میں ذرا دقت نہ ہوئی تھی۔ چائے منگوائی اوربہت کچھ ایک ہی سانس میں پوچھ ڈالا۔ اسی دوران ایک نوجوان نے اپنی سائیکل دیوار کے سہارے کھڑی کی اور اندر داخل ہوا۔ اس کی بغل میں کالی شال تھی۔ نکلتا ہوا قد، نوکیلی مونچھیں، پاؤں میں میانوالی کی روایتی تلے والی کھیڑی، بوسکی کا لمبا کرتا، لٹھے کی شلوار، وہ وجیہہ لگ رہا تھا۔
’’یہ میری شال ہے بہت شوق سے بنوائی تھی میں نے۔ سائیکل کے پہیے میں آکر برباد ہو گئی۔ کیا یہ مرمت ہو سکتی ہے۔۔۔؟‘‘
دکان نے شال کو دیکھا ، پرکھا اور کہا:
’’رفو ہو جائے گی‘‘۔
جوان نے دکان میں چہاروں طرف نظر ڈالی۔ جیسے اسے یقین نہ آرہا ہو۔ کیلنڈر پر، دیوار چسپاں ایک ایکٹریس کی تصویر پر بہت دیر تک اس کی نظریں ٹکی رہیں۔
اس جیسی دوسری تصاویر پرسے اس کی نظریں پھسلتی پھر اپنی شال پر آکر ٹک گئیں۔ اس بار اس کا مخاطب میں تھا:
’’روپیہ روپیہ جوڑ کر یہ شال بنوائی ہے میں نے۔ رفو کرنے سے یہ اوڑھنے کے قابل تو ہو جائے گی نا۔۔۔؟‘‘
’’ہاں بالکل۔۔۔رفو ہو کر ٹھیک ہوجائے گی‘‘۔
’’بہت سال بعد اللہ نے خواہش پوری کی، لیکن سائیکل کے پہیے میں آکر شال ادھڑ گئی‘‘۔
جتنی دیر شال مرمت ہوتی رہی میں وہ رفو گری کاعمل غورسے دیکھتارہا۔
دکان کے سامنے والے تھڑے پر ایک شخص، جس کے لباس میں بے شمار پیوند تھے، بیٹھا اپنی جوتی گانٹھ رہا تھا۔ وقفے وقفے سے اس کے حلق سے حق ھو کی آواز نکلتی جو میرا دھیان کھینچ رہی تھی۔ بوڑھا خود دنیا ومافیہا سے بے خبر جوتی گانٹھنے میں مگن تھا۔ گویا وہ گلی اور اس میں موجود بھیڑ اس کے لیے جیسے تھی ہی نہیں۔
میں سارے منظر سے لاتعلق اپنی دنیا میں مگن اس شخص کی طرف پوری طرح متوجہ نہ ہو پارہا تھا کہ منقسم ہونے والی گلی، ادھڑی ہوئی شال کے ریشے اور معدوم ہوجانے والی مہک بیچ میں آکر میرا دھیان کاٹ رہے تھے۔
جوتی گانٹھتے گانٹھتے اس شخص نے سرا ٹھایا، یہاں تک کہ اس کی نگاہ آسمان پرجا کر ٹک گئی۔ اس کے حلقوم سے حق ہو کی صدا نکلی۔ میری گردن تیزی سے اس کی جانب گھومی، عین اسی لمحے میں اس کی نگاہیں آسمان پر جاکر الجھ گئیں۔ اس بارحق ہو کی پکار اس کے تنے ہوئے حلق کوچیرتے ہوئے نکل کر پھٹ گئی تھی۔
ادھڑی ہوئی شال کی طرح ادھڑی ہوئی آواز نے میرے دھیان کی گٹھڑی باندھ کر اپنے پاس دھر لی تھی۔
اوپرکو اٹھا ہوا سر تیزی سے واپس اس کی جھولی میں گر گیا تھا۔ مجھے لگا جیسے کٹے ہوئے حلق کے کنارے بج رہے تھے:
’’عشق کہے تساں چنگا کیتا، بوہے یاردے واڑیاسی‘‘۔
یہی وہ لمحہ تھاجب میں نے اپنے دھیان کی گٹھڑی اپنی گرفت میں لے لی تھی۔ اب مجھے اس کی پروا نہیں تھی کہ گلی کٹ کر جڑی تھی یاجڑ کر کٹ گئی تھی کہ ادھڑے ہوئے وقت کی شال کے ریشے رفو ہو کرا پنی جگہ پر پھر سے بیٹھ گئے تھے اور میں ادھرادھر سے بے نیاز اس سمت جست لگاچکا تھا جہاں معدوم ہونے والی مہک کے وسیلے سے کٹنا اور جڑنا ایک ساہوگیا تھا۔