پاکستان اور افغانستان چین کے ساتھ مل کر عالمی سیاست کو کیسے تبدیل کررہے ہیں؟
گزشتہ کم و بیش ایک دہائی سے عالمی سیاست میں جو تبدیلی تیزی سے رونما ہوتی نظر آرہی ہے وہ یہ ہے کہ اب عالمی سیاست علاقائی مفادات اورمقاصد کے تحت تشکیل پانے والی گروہ بندیوں سے عبارت ہوتی جارہی ہے اور ہر ملک، خواہ اس کے اندرونی حالات کچھ بھی ہوں، اپنے پڑوسیوں ، بالخصوص جغرافیائی طور پر اپنے قریب موجود ممالک سے الگ تھلگ ہو کر عالمی سیاست نہیں کرسکتا۔
یہی وجہ ہے کہ ابھی چند روز پہلے تک بھارت نے امریکہ کی طرف سے یوکرین کے معاملے پر آنے والے سیاسی دباؤ کا اپنی چانکیائی چالاکیوں سے سامنا کیا ۔ بھارت کے توپھر روس سے دیرینہ تعلقات ہیں، بلکہ یوں کہہ لیجیے کہ پوری سرد جنگ کے دوران بھارت سوویت یونین کے سیاسی بلاک کا ایک مضبوط حصہ رہا ہے، لیکن گزشتہ ایک عشرے میں اس کا جھکاؤ واضح طور پر امریکہ کی جانب دکھائی دے رہا تھا۔ تاہم بھارت سے بڑھ کر ہمارے معاملےمیں روایتی عالمی سیاست کےماہرین حیران بھی ہوئے کہ روس کا دورہ بھی ہمارے وزیراعظم نے اس وقت کیا جب روس یوکرین کے خلاف طبل جنگ بجا چکا تھا،اور پھر ہم نے یورپی یونین اور امریکہ کے دباؤ کا سامنا بھی کیا اور روس کے خلاف بیان دینے سے گریز کیا۔ اب بھی جب ملک میں عدم اعتماد کی فضا چل رہی ہے، بقول وزیراعظم صاحب کے امریکی دباؤسے ان کے خلاف انہی ’جرائم‘ کی بنیاد پر تحریک عدم اعتماد چلائی جارہی ہے۔ اس سے قبل بھی پاکستان چین کے معاملے میں بالخصوص بین الاقوامی دباؤ کوبرداشت کرتا آرہا ہے اور گزشتہ عشرے میں ہمارے مقتدر طبقات نے چین کی طرف واضح جھکاؤ کو اپنی خارجہ پالیسی کا اہم ستون بنا لیا ہے ۔ اب چین کے تعلقات جہاں جہاں ہیں، ہمارے بھی ان ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر ہوتے چلے جارہے ہیں اور جہاں چین کی کچھ مخاصمت ہے ، سو وہ بھی ہم سے پرانے دوست ہونے کے باوجود دور ہوتے چلے جارہے ہیں۔
دوسری طرف چین نے بھی عالمی سیاست میں بڑی تیزی سے اپنی جگہ بنائی ہے اور اب چین ایک مضبوط معاشی قوت کے ساتھ ساتھ ایک موثر سیاسی قوت بن کر بھی ابھر رہا ہے، یہ الگ بات ہے کہ چین کی سیاست اس کی معیشت اور معاشی اپروچ کے تحت ہے اور وہ جنگ و جدل کی بجائے معاشی بالادستی کو اپنا ہتھیار بنائے ہوئے ہے۔ چین کا عالمی شہرت پانے والا ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جس کے ذریعے چین دنیا کے کئی ممالک کو اپنے ساتھ ملا رہا ہے۔ پاکستان سے تو چین کی دوستی پرانی بھی ہے اور گہری بھی اور اس دوستی کے تزویراتی فوائد بھی بہرحال دونوں ملکوں کے لیے ہیں لیکن چین اب آگے بڑھ کر افغانستان اور وسط ایشیائی ممالک سے بھی روابط بڑھا رہا ہے۔
چنانچہ دو روز پیشتر ہونے والی علاقائی کانفرنس جو بنیادی طورپر افغانستان، پاکستان اور چین کے مابین ہوئی ہے، کو بھی اسی عالمی و علاقائی تناظر میں دیکھا جائے تو بات سمجھ آتی ہے ۔ چین کے لیے مضبوط پاکستان اور اب مضبوط اور پرامن افغانستان دونوں بہت ضروری ہیں۔کانفرنس میں دوسری طرف دیگر علاقائی ممالک کو بھی نمائندگی دی گئی ہے مثلاًروس، ایران، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان کے نمائندے اس کانفرنس میں شریک رہے ہیں اور اسی طرح اس کانفرنس میں مبصرین میں قطر اور انڈونیشیا کی شرکت بھی کچھ پیغامات دے رہی ہے اور چین کے مستقبل کے علاقائی عزائم کو بہت خوب صورت انداز میں واضح کرتی ہے۔
چین کی خارجہ پالیسی کا ایک اور خوب صورت نکتہ یہ ہے کہ ا ن کے ہاں مغرب کی طرح ہر ابھرتی خبر اور واقعے پر ردعمل دینا ضروری نہیں سمجھا جاتا اور یہ ظاہر ہے کہ ایک بہترین منصوبہ بندی پر مبنی حکمت عملی کا اظہار ہی کہا جاسکتا ہے۔ چنانچہ ہم نے دیکھا کہ طالبان کی طرف سے بچیوں کے سکول بند کرنے کا معاملہ ہو یا کوئی یا خواتین سے متعلق کوئی اور بات ہو، مغرب اور امریکہ خاموش رہنے کو اپنی ناکامی سمجھتے ہیں لیکن چین اپنی عقلمندی اپنی خاموشی سے ظاہر کرتا ہے۔ اس کانفرس سے پیشتر یہ واقعات پیش آئے لیکن چین نے انہیں افغانستان کا داخلی معاملہ سمجھتے ہوئے نظر انداز کیا یا کم از کم اتنی اہمیت نہیں دی کہ اس پر بات کی جائے۔ کانفرنس میں ایک طرف چین نے امریکہ اور مغرب کی ان امیدوں پر پانی پھیر دیا جو یہ سوچ رہے تھے کہ بچیوں کے سکول بند ہونے پر چین کی طرف سے ردعمل ایک عالمی ضرورت ہے اور وہ ضرور آئے گا، بلکہ چین نے الٹا امریکہ سے ایک بار پھر مطالبہ کیا کہ وہ طالبان کے منجمد اثاثے بحال کردے تاکہ اس کی معیشت کو سہارا ملے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ امریکہ بہادر نے دنیا کا ایک عجیب مقدمہ چلایاجس میں وہ خود ہی مدعی تھا اور خود ہی منصف، اور اس کے ذریعے افغانستان کے امریکہ میں موجود اثاثوں میں سے ساڑھے تین ارب ڈالر کی رقم پر ڈاکہ ڈالا گیا، یہ کہہ کر کہ یہ رقم نائن الیون کے شہدا کے ورثا میں تقسیم کی جائے گی۔
چینی حکومت کے رویے میں اگرچہ جارحانہ پن کم دیکھا جاتا ہے لیکن اب کچھ عرصہ سے مغرب بالخصوص امریکہ کے لیے ان کے الفاظ سخت ہوتے جارہے ہیں اور یہ بھی شاید چین کی مستقبل کی خارجہ پالیسی کا ایک اظہار ہی ہے۔ اس کانفرنس میں بھی چین نے ایک مرتبہ پھر امریکہ کو افغانستان کی موجودہ صورت حال کا سب سے بڑا ذمہ دار ٹھہرایا ہے اور اسے یاد دلایا ہے کہ نائن الیون میں مرنے والوں کا خیال تو امریکہ کو ہے لیکن اقوام متحدہ جو بارہا افغانستان میں دس لاکھ بچوں کے بھوک سے مرجانے کے خطرے کا الارم دے رہی ہے اس کی فکر اسے کیوں نہیں ہے۔
اس کانفرنس کے دیگر مقاصد اور فوائد اپنی جگہ ، لیکن ایک مزےدارقسم کا فائدہ یہ بھی ہے کہ اس کانفرنس نے افغانستان کےاصل سٹیک ہولڈرز کو اکٹھا کیا ہے اور کچھ عرصہ قبل دہلی میں ہونے والی ایک دو نمبر افغان ڈائیلاگ نامی کانفرنس کا بھانڈا بھی پھوڑ دیا ہے جس میں افغانستان سے تعلق رکھنے والے کسی اہم اور اصل سٹیک ہولڈر نے شرکت نہیں کی تھی۔ یعنی چین، پاکستان اور افغانستان تینوں نے بھارت کو بھرپور پیغام دیا ہے کہ بھئی تو کون، میں خوامخواہ!
بہرحال موجودہ علاقائی کانفرنس اس خطے میں موجود دوستوں اور پس پردہ دشمنوں ، دونوں کے لیے ایک واضح پیغام ہے اور وہ یہ ہے کہ اب اپنے عالمی مقاصد کو علاقائی بنیادوں پر استوار کرنا ہر ملک کی مجبوری بھی ہے اور ضرورت بھی، خواہ وہ کتنی ہی بڑی عسکری قوت ہو، سیاسی یا معاشی۔