ریگِ دِیروز
بند دریچے ، کُھلی آنکھیں ، ہر آن دروازے پر ٹِکی
، دستک پر کان دھرے (یا شاید آہٹ پر!!!).... ایک جانب اس قدر بیتاب ، اور دوسری طرف ایسے مُنہَمِک کہ آہٹ ہو تو جان ہی نکل جائے۔
یہ کون لوگ ہیں؟؟؟ پوچھو تو !!!
ہر بشر ایک الگ قصہ جیون کی گٹھری میں باندھے ، سرسراتی سانس کی تھاپ پہ گاتا چلا جارہا ہے۔ دِل ہے کہ دھڑکن کے سِوا کوئی مصرف ہی نہیں ، ان بے آواز خرابوں میں یہ دھک دھک کی آواز ،
گویا زنجیر زنی ہو!!!
یہی شاید انتظار ہے ۔ کسی آمد پر دھڑکن تیز ہونے کا انتظار ، کہیں یادِ رفتگاں میں اسی دھڑکن کے تھم جانے کا انتظار ۔ کبھی جلتے ہی چلے جانے کا
اور پھر کسی موڑ پر بجھ کے دھواں ہونے کا انتظار۔ یوں تو گھڑی انتظار کا استعارہ ، کہ گھڑی کے سہارے گھڑی بھر کا انتظار ممکن ہے۔
مگر صدیوں پہ محیط ، جنم جنم کے پُرہول سنّاٹوں مَیں کِسی کا انتظار کِس آس کے آسرے کریں ، کہ وقت تو بہرحال کٹنے کے لیے ہے ، سو اِک پل کو لگی آنکھ کا صِلہ جُھریوں بھرے چہرے اور برف پوش بالوں کی صورت بھی ملے تو سودا مہنگا کہاں ہے!!!