ری سائیکلبن

لفظ واپس نہیں ہوا کرتے


تلخیوں میں گھلے ہوئے لہجے
ظرف کے ہاتھ کیا ہی ماہر ہوں
پھول بن کر نہیں کھلا کرتے


حذف کرنے کا آسرا لے کر
کوئی تحریر لکھ نہیں دینا
بھول جانے کی التجا لے کر
مت کہو کوئی حرف نا بینا
کل جو خالی گیا تھا وار کوئی
کارگر آج ہو بھی سکتا ہے
بھولی بسری گواہیوں کا شجر
بار ور آج ہو بھی سکتا ہے
نظر انداز ہونے والا درد
معتبر آج ہو بھی سکتا ہے


وقت کی دھول میں الجھ کر بھی
زندہ رہتا ہے سانس لیتا ہے
نقش آواز کا ہو حرف کا ہو
لاکھ غائب کرو نگاہوں سے
دل کے اندر کہیں پہ رہتا ہے


نقش بن کر نہیں مٹا کرتے