روشنی پرچھائیں پیکر آخری
روشنی پرچھائیں پیکر آخری
دیکھ لوں جی بھر کے منظر آخری
میں ہوا کے جھکڑوں کے درمیاں
اور تن پر ایک چادر آخری
ضرب اک ٹھہرے ہوئے پانی پہ اور
جاتے جاتے پھینک کنکر آخری
دونوں مجرم آئنہ کے سامنے
پہلا پتھر ہو کہ پتھر آخری
ٹوٹتی اک دن لہو کی خامشی
دیکھ لیتے ہم بھی محشر آخری
یہ بھی ٹوٹا تو کہاں جائیں گے ہم
اک تصور ہی تو ہے گھر آخری
دل مسلسل زخم چاہے ہے ظفرؔ
اور اس کے پاس پتھر آخری