روشنی خوابوں کی آنکھوں میں بسائے رکھنا

روشنی خوابوں کی آنکھوں میں بسائے رکھنا
رات گہری ہے بہت شمع جلائے رکھنا


اپنی شیشہ لقبی کا ہے تحفظ لازم
خود کو پتھر زدہ لہجوں سے بچائے رکھنا


تو یہ کیا جانے کہ اس دور جفا پیشہ میں
کتنا مشکل ہے تعلق کو بنائے رکھنا


جان سے پیاری رہی ہے ہمیں اپنی دستار
ہم نے سیکھا ہی نہیں سر کو جھکائے رکھنا


سونا تپ تپ کے بنا کرتا ہے کندن یارو
اپنے بچوں کو نہ سینے سے لگائے رکھنا


دوستو جنگ بھی لازم ہے حریفوں سے مگر
پرچم امن بھی ہاتھوں میں اٹھائے رکھنا


تیرگی زادے تجھے چین نہ لینے دیں گے
عشق کی شمع مگر دل میں جلائے رکھنا


وہ غزل چہرہ کہ ہے جان گلستان خیال
اس کو اشعار کے پھولوں سے سجائے رکھنا


میرے اجداد کی شیبانؔ یہی ہے تعلیم
ہو جہاں دھوپ کی شدت وہاں سائے رکھنا