روشن ہے بزم شعلہ رخاں دیکھتے چلیں

روشن ہے بزم شعلہ رخاں دیکھتے چلیں
اس میں وہ ایک نور جہاں دیکھتے چلیں


وا ہو رہی ہے مے کدۂ نیم شب کی آنکھ
انگڑائی لے رہا ہے جہاں دیکھتے چلیں


سرگوشیوں کی رات ہے رخسار و لب کی رات
اب ہو رہی ہے رات جواں دیکھتے چلیں


دل میں اتر کے سیر دل رہ رواں کریں
آہوں میں ڈھل کے ضبط فغاں دیکھتے چلیں


کیسے ہیں خانقاہ میں ارباب خانقاہ
کس حال میں ہے پیر مغاں دیکھتے چلیں


ماضی کی یادگار سہی یاد دل تو ہے
طرز نشاط نوحہ گراں دیکھتے چلیں


سب وسوسے ہیں گرد رہ کارواں کے ساتھ
آگے ہے مشعلوں کا دھواں دیکھتے چلیں


آنچل سے اڑ رہے ہیں فضاؤں میں دور دور
شاید وہی ہو جان بتاں دیکھتے چلیں


آ ہی گئے ہیں رقص گہ گل رخاں میں ہم
کچھ رنگ و بو کا سیل رواں دیکھتے چلیں