پاکستان کا مثالی گاؤں جہاں شرخ خواندگی 100 فیصد

پنجاب کے دور دراز اور نسبتاً  پسماندہ علاقے میں ایک ایسا مثالی گاؤں ہے جہاں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہاں کوئی شخص سگریٹ نہیں پیتا ہے,  اس کی شرح خواندگی 100 فیصد ہے اور ایک سو سال سے اس گاؤں میں کسی قسم ایف آئی آر درج نہیں ہوئی۔

کیا آپ اس گاؤں کے بارے جانتے ہیں؟

چلیں ہم آپ کو بتاتے ہیں، اس گاؤں کا نام ہے۔۔۔ رسول پور

رسول پور تحصیل جام پور کا دور دراز گاؤں ہے۔ یہ راجن پور سے شمال کی سمت واقع ہے۔ اس گاؤں کی کل آبادی تقریباً چھے ہزار کے قریب ہے۔ تعلیم سے محبت میں یہ گاؤں کسی ترقی یافتہ شہر سے کسی درجے بھی کم نہیں ہے۔اس گاؤں میں آباد لوگوں کا تعلق  بلوچی قبیلے احمدانی  ہے۔ یہ گاؤں پانچ بار سیلاب کی نذر ہوا اور آخر کار 1933 میں نئے سرےسے  آباد ہوا۔ 1935 میں یہاں کے باسیوں نے اپنی مدد آپ کے تحت طلبہ اور طالبات کے لیے پہلا پرائمری سکول تعمیر کیا۔

یہ چھوٹا سا گاؤں دنیا بھر کے لیے ایک مثال بن کر ابھرا ہے۔ ہم آپ کو اس گاؤں کی  پانچ  دل چسپ اور اہم باتیں بتاتے ہیں:

1۔ کرائم فری زون (جرائم سے پاک علاقہ)

1933 سے اس گاؤں میں  کسی بھی فرد پر ایف آئی آر درج نہیں ہوئی۔ چھوٹے موٹے تنازعات باہمی مشاورت سے حل کیے جاتے ہیں۔ اس گاؤں میں آج تک کوئی قتل بھی نہیں ہوا۔ دل چسپ بات یہ کہ یہاں پر آج تک کوئی طلاق بھی نہیں ہوئی ہے  یعنی یہ گاؤں  ساس بہو کے جھگڑے کی نحوست سے بھی پاک ہے۔

2۔ ہر فرد پڑھا لکھا / خواندگی کی شرح سو فیصد

اقوام متحدہ کی تعریف کے مطابق خواندہ اس شخص کو کہا جاتا ہے جو کم از کم اپنا نام لکھ پڑھ سکے۔ لیکن رسول پور میں خواندگی کا معیار کم از کم میٹرک کی تعلیم ہے۔  یہاں پر آپ کو دکاندار بھی میٹرک یا ایف اے پاس ملے گا۔ یہاں کے ایک استاد عارف نواز نے اپنے ایک رسالے میں رسول پور کی علم دوستی کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ یہاں کی تو بلی بھی گریجوایٹ ہے۔ البتہ 2017  کی مردم شماری کے مطابق حقیقی شرح خواندگی 69.92 فیصد ہے (جس میں  76.94 فیصد مرد اور 62.79 فیصد خواتین) جبکہ اس ضلع کی مجموعی شرح خواندگی 33.75 فیصد ہے۔

یہاں پر دو ہائی سکولز (ایک لڑکوں اور ایک لڑکیوں کے لیے)  اور ایک پرائمری سکول قائم ہے۔ ہائی سکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد طلبہ آٹھ دس کلومیٹر دور جام پور میں کالج میں داخلہ لیتے ہیں۔علاقے کے لوگ ہر سال 8 ستمبر کو خواندگی کا عالمی دن نہایت جوش و خروش سے مناتے ہیں۔ اساتذہ کی خدمات کو سراہتے ہیں, ان کو تحفے پیش کرتے ہیں اور ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔

3۔ گورننس

اس گاؤں میں صفائی ستھرائی کا انتظام بھی مثالی ہے۔ اس گاؤں کی اپنی انتظامیہ ہے جو رسول پور ڈویلپمنٹ سوسائٹی کے نام سے جانی جاتی ہے۔ یہ سوسائٹی گاؤں کی فلاح و بہبود کے لیے کوشاں رہتی ہے۔ یہ ہر گھر سے ماہانہ دو سو روپے جمع کرتی ہے اور گاؤں بھر میں صفائی کا انتظام کرتی ہے۔اگر کوئی بچہ معاشی حالات کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم حاصل نہ کرسکے تو یہ سوسائٹی گاؤں کے مخیر حضرات سے چندہ اکٹھا کرکے اس کی تعلیم کے اخراجات پورے کرتی ہیں۔

4۔ خواتین کا مقام

اس گاؤں میں لڑکوں کے طرح لڑکیوں کی تعلیم پر بھی خصوصی توجہ دی جاتی ہیں۔ یہاں ہر خاتون  پڑھی لکھی ہے۔ خواتین کو فیصلہ سازی اور خاندانی مسائل میں شامل کیا جاتا ہے۔ یہاں پر ایم فل ، پی ایچ ڈی تک تعلیم یافتہ خواتین موجود ہیں۔  

5۔ نو سموکنگ ایریا

یہاں پر پان یا سگریٹ یا تمباکو کی بالکل اجازت نہیں ہے۔ گاؤں کے داخلے پر مسافروں اور مزدوروں کے لیے ایک ہوٹل یا سرائے بنایا گیا ہے وہاں بھی سگریٹ کی اجازت نہیں۔ گاؤں کے باسی چائے کے عادی نہیں ہیں لیکن مزدوروں کے لیے اس ہوٹل پر چائے کی سہولت موجود ہے۔

مثالی گاؤں مثالی لوگ

یہ گاؤں پاکستان میں ایک امید کی کرن ہے۔ رسول پور کے بارے میں درج بالا بیان کردہ معلومات میں ذرا مبالغہ آرائی بھی نظر آتی ہے۔ لیکن یہ گاؤں نسبتاً ایک مثالی گاؤں ہے۔ ہمارے ہاں لوگ صرف گلے شکوے کرتے رہتے ہیں لیکن عملی طور پر کم ہی سرگرم ہیں۔ رسول پور کے لوگ دور دراز علاقے میں ایک روشن دماغ کی زندہ مثال ہیں۔ چھوٹے پیمانے پر ہر علاقے میں اپنی مدد آپ بہتری اور ترقی کے کافی مواقع موجود ہیں۔ اس گاؤں سے یہ حوصلہ اور سبق ملتا ہے کہ جب تعلیم کی قدر کرنے والے لوگ زندہ ہوں تو معاشرے میں امن و سلامتی، خوشحالی، ہمدردی اور باہمی احترام کی قدریں پھلتی پھولتی ہیں۔

رسول پور کی سیر کے لیے یہ ویڈیو ملاحظہ کیجیے 

https://www.youtube.com/watch?v=xxC71LQAGAg&t=13s

متعلقہ عنوانات