کائنات کے سب سے حسین و جمیل انسان کے سراپا کا شان دار بیان
پاکیزگیٔ صورت اور حسن و جمال جو اُمّ معبد رضی اللہ عنہا نے دیکھا اور بیان کیا یا حضرت ہند رضی اللہ عنہ بن ابی ھالہ نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ و حسین رضی اللہ عنہ کی خواہش پر حضورﷺ کا جو حلیہ بیان کیا تھا، اس کے بنیادی و فطری خدوخال تو وہی تھے جو ابتدائے عمر میں دیکھے گئے۔
اعضاء کے تناسب میں جو تبدیلی عمر کے ساتھ ساتھ آتی ہے، بس وہی دیکھی جا سکی یعنی بچپن کے متناسب الاعضاء حضرت محمدﷺ بن عبد اللہ جب محمدٌ رَّسول اللہ ﷺ کی شان سے معروف ہوئے تو کسی بھی عضو میں ایسی تبدیلی نہ آئی جو حسن کے باب میں نقص شمار ہوتی۔
آنکھوں کی چمک، ان میں سرخ ڈورے اور فطری سرمہ ہمیشہ پرکشش رہا اور ان کی پتلیاں بڑی اور روشن ہی رہیں ۔
سر پہ بالوں کی بہار، ابرو کی باریکی و پیوستگی میں وہی تازگی دیکھی جاتی تھی جو حضراتِ صحابہ رحمہم اللہ نے ان کی جوانی میں دیکھی اور آج کتب ِشمائل کی زینت ہے۔
حضرت اُمّ معبد رضی اللہ عنہا نے حضورﷺ کو جس طرح شیریں گفتار سنا، سجیلا و دل رُبا دیکھا، موتیوں جیسے ان کے الفاظ ذہن نشین کیے، مربوط و برمحل فصیح و بلیغ کلام سنا۔ یہی مناظر بحیرا ء راھب نے ۱۲ سال کی عمر شریف میں دیکھے اور وہ کہہ اُٹھے:
’’یہ رحمۃٌ لّلعٰلمینﷺ ہیں ‘‘
حضرت اُمّ معبد رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : میں نے جس جوانِ رعنا سے آنکھیں ٹھنڈی کی ہیں ، وہ خوش رنگ، مہذب عادات، مخدوم و مطاع اور سراپا محبت ہے۔
بایں ہمہ مثلِ قمر چہرے کی رونق، اُبھرتے ہوئے نور کا منظر، گندمی رنگ میں ملاحت کی آمیزش وہی بچپن والی تھی۔ البتہ داڑھی کے بالوں کا حُسنِ امتیاز بعد کی خاصیات میں سے ہے۔
اس لیے کمالاتِ نبوت اور آپﷺ کے جسمانی جمالِ جہاں آراء کے مذکورہ بیانات سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ہمارے نبی علیہ السلام بچپن میں کس قدر حسین و خوب رُو اور عادات و شمائل کے پیارے ہو سکتے ہیں ؟ بچپن وجوانی میں یکساں حسن کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سابقہ آسمانی کتابوں میں آپﷺ کی مہرِ نبوت (جو مونڈھوں کے درمیان کسی قدر دل کی طرف تھی)، آنکھوں کے سرخ ڈوروں ، سرمگیں آنکھوں اور شکل و شباہت کے بیان کے ساتھ دیگر بعض علامات کا تذکرہ تھا۔ ان کا تقاضہ تھا کہ نبوت کی یہ نشانیاں اور حسن و جمال کے ساتھ چلنے پھرنے، کھانے پینے، سونے جاگنے، بول چال اور نشست و برخاست از ابتداء تا انتہاء ایک ہی رہتیں ، تاکہ ولادت، بچپن، جوانی اور اواخرِ عمر میں آپﷺ کا سراپا گواہی دے کہ حضرت محمدﷺ ہی اللہ کے آخری نبی ہیں ۔
جیسے آفتاب دلیلِ آفتاب ہوتا ہے ایسے ہی نبی کی ذات دلیلِ نبوت ہوتی ہے۔