طائف:سلام اس پر کہ جس نے زخم کھا کر پھول برسائے
یہ نہیں سنتے شاید دوسرے سنیں۔ یہاں جی نہیں لگتا شاید وہاں لگے۔کچھ یہی سوچ کر زیادہ دور نہیں بلکہ امرائے مکہ کے گرمائی اسٹیشن طائف کا خیال آیا۔ زید بن حارثہؓ آزاد غلام کے سوا ساتھ بھی کوئی نہ تھا۔ حجاز کی سب سے بڑی دولت مند عورت (خدیجہؓ) خودبھی جا چکی تھیں اور جو کچھ ان کا تھا ان ہی راہوں میں جن پر وہ صرف ہو رہا تھاصرف ہوچکا تھا۔ سب کچھ جا چکا تھا، اتنا بھی باقی نہ تھا کہ طائف تک کے لیے کوئی سواری ہی کرایہ پر کر لی جائے۔ معمولی دو چپلوں کے سوا پائے مبارک کے لیے راستہ کو آسان کرنے والی کوئی چیز نہ تھی، اسی حال میں پہنچتے پہنچتے ہی اونچی دکانوں والوں کے پاس آئے۔ جس لیے آئے تھے اس کا اظہار کیا گیا۔ پھر تمام تجربوں میں یہ آخری تجربہ تھا کہ جس کسی کے پاس گئے اس نے پلٹا یا، جس سے بولے اس نے جھڑکا، حالاں کہ کم از کم اجنبی لوگوں کا سلوک ابتداءً آپﷺ کے ساتھ کبھی ایسا نہ تھا اور نہ رود آوازپیغمبر کے نعروں کے ہوتے ہوئے ابتداءًفطرتِ بشری ایسا کر سکتی ہے، مگر یہاں بھی دکھایا جا رہا ہے اور عجب شانوں کے ساتھ دکھایا جا رہا ہے، جنہیں کچھ نہیں آتا تھا ان کی زبانوں پر منطق جاری ہوئی:
’’جسے سفر کے لیے ایک گدھا بھی میسر نہیں کیا خدا کو اس کے سوا ر سول بنانے کے لیے اور کوئی نہیں ملتا تھا؟ ‘‘ٹوٹے ہوئے دل کے لیے یہ پہلا تیر تھا جو امارت کے نشہ میں چور ایک امیر کی زبان سے نکلا۔
’’ردائے کعبہ تار ہو جائے، اگر خدا نے تمہیں رسول بنا کر بھیجا ہے۔‘‘ کعبہ کی عظمت جس کی نگاہ میں ان بتوں کے ساتھ وابستہ تھی جو مختلف قبائل کی خدائی کے نام سے وہاں رکھے گئے اور اس کے خیال میں ان بتوں نے سارے عرب کو کعبہ کے ساتھ باندھ رکھا تھا، اس نے اپنا یہ سیاسی نظریہ پیش کیا۔
’’تم اگر رسول ہو تو میں اس کا مستحق نہیں ہوںکہ تم سے بولوں اور اگر نہیں ہو تو میری ذلت ہے کہ کسی جھوٹے سے بولوں۔‘‘یہ ان میں سے تیسرے کی منطق تھی۔
جو سب کے لیے تھا اور سب کے لیے ہے، قیامت تک کے لیے ہے، کیسا درد ناک نظارہ ہے ،ا سی کو سب واپس کر رہے تھے، تیز و تلخ جملوں کے ساتھ واپس کر رہے تھے؟ بات اسی پر ختم نہیں ہوگی کہ انہوں نے جو پیش ہوا تھا اس کو صرف رد کر دیا، بلکہ آگ میں پھاند نے والوں کی جو کمریں پکڑ پکڑ کر گھسیٹ رہا تھا وہی کمرکے بل گرایا جاتا تھا، پتھر ما ر مار کر گرایا جاتا تھا ،گھٹنے چور ہو گئے، پنڈلیاں گھائل ہوگئیں، کپڑے لال ہو گئے، معصوم خون سے لال ہو گئے، نوعمر رفیق نے سڑک سے بے ہوشی کی حالت میں جس طرح بن پڑا اٹھا یا، پانی کے کسی گڑھے کے کنارے لایا، جوتیاں اتارنی چاہیں تو خون کے گوندسے وہ تلوے کے ساتھ اس طرح چپک گئی تھیں کہ ان کا چھڑانا دشوار تھا۔
اور کیا کیا گزری، کہاں تک اس کی تفصیل کی جائے؟ خلاصہ یہ کہ طائف میں وہ پیش آیا جو کبھی نہیں پیش آیا۔
لیکن طائف کی بات صرف اسی پر ختم ہو جاتی ہے۔ سڑک مڑ رہی تھی لیکن لوگوں نے راستہ کو سیدھا خیال کیا، چوراہے پر کھڑے تھے لیکن کوئی نہیں ٹھٹکا، حالانکہ بخاری میں سب سے بڑی مصیبت کے سوال میں جب یہ ذاتی اقرار موجود تھا:سب سے زیادہ سخت اذیت ان سے (نہ ماننے والوں سے) مجھے اس گھاٹی میں طائف کے دن پہنچی ۔جس دن میں نے عبد یا لیل کے بیٹے پر اپنے کو پیش کیا تھا۔
تو لوگوں نے اُحداور اُحد کے پہاڑوں کو کیوں یاد کیا؟ لیکن جو اُحد کے مقابلہ میں طائف کو یا دکرتا تھا اس کو سب بھول گئے،
پوچھا بھی گیا تھا:کیا آپ پر احد کے دن سے بھی زیادہ سخت دن آیا؟
اسی کے جواب میں جس پر گزری اس نے طائف پیش کیا تو جن پر نہیں گزری اب ان سے کیا پوچھا جائے؟
اور واقعہ بھی یہی ہے کہ ٹھیک جس طرح ابی طالب کی گھاٹی میں جو ایک طرف سے دبایا گیا تو دوسری سمت وہ بلند ہوااور اتنا بلند ہوا کہ ارض و سموات، سفلیات وعلویات،مرئیات وغیر مرئیات، حتیٰ کہ جس پر سب ختم ہوتے ہیں منتہیٰ کا یہ سدرہ بھی اسی کے احاطہ میں آگیا۔
بجنسہٖ کچھ اسی طرح طائف کی گھاٹی میں جو واپس کیا گیا اور اس طرح واپس کیا گیا کہ جن سے ملتے وہی پھٹتا، جس سے چمٹتے وہی سمٹتا، جس کو بلاتے وہی دردراتا، جس سے جوڑتے وہی توڑتا۔ انکار کی یہ آخری حدتھی، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کائنات کا ذرہ ذرہ آپ سے ٹکرارہا ہے، جو ہے رد کر رہا ہے۔
زیدؓ نے شہرسے باہر نکال کر خون سے لتھڑے ہوئے جسم کو دھو دھا کر صاف کیا۔ سامنے کے ایک باغ میں کچھ آرام لینے کے لیے پہنچایا ۔ جہاں زخموں سے خستہ و بے جان، بھوک اور پیاس سے نڈھال پردیسی مسافر کی مہمان نوازی انگور کے چند خوشوں سے کی گئی، جس سے دل ٹھکانے تو کیا ہوتا لیکن صلاحیت پیدا ہو گئی کہ قدم اٹھا سکیں، لیکن قرن الثعلب کے موڑ تک پہنچے تھے کہ ناتوانی نے بٹھا دیا۔ سر پکڑ کر بیٹھ گئے اور وہی جو انکار کے عمل کو آخری حد پر پہنچا کر اب ردِ عمل کا آغازکرنا چاہتا تھا، دس بارہ سال کی خاموش زبان میں جنبش پیدا کر اتا ہے۔ جو بند تھی کھل گئی، طوفان اُمنڈ پڑا اس وقت وہاں کون تھا جو سنتا کہ کیا اُبل رہا ہے؟ تاہم غالباً زیدؓ ہی کے ذریعے سے چند الفاظ حافظوں میں اب تک باقی ہیں سال ہا سال کے صبر و سکون کی چٹان پھوٹی اور اس سے یہ فوارہ چھوٹنے لگا:
’’میرے اللہ! تیرے پاس اپنی بے زوری کا شکوہ کرتا ہوں، تیرے آگے اپنے وسائل و ذرائع کی کمی کا گلہ کرتا ہوں، دیکھ انسانوں میں میں ہلکا کیا گیا، لوگوں میں یہ میری کیسی سُبکی ہو رہی ہے؟ اے سارے مہربانوں میں سب سے مہربان مالک! میری سن۔ میرا زور،میرارب تو ہی ہے۔مجھے تو کن کے سپرد کرتا ہے ؟ جو ہم سے دور ہوتے ہیں مجھے ان سے نزدیک کرتا ہے ؟ یا تو نے مجھ کو میرے سارے معاملات کو دشمنوں کے قابو میں دے دیا؟ پھر بھی اگر مجھ پر تیرا غصہ نہیں ہے تو مجھے ان باتوں کی کیا پرواہ، مگر کچھ بھی ہومیری سمائی تیری عافیت ہی کی گود میں ہے، تیرے چہرے کی وہ جگمگاہٹ جس سے اندھیریاں روشنی بن جاتی ہیں، میں اس نور کی پناہ میں آتا ہوں کہ اسی سے دنیا و آخرت کا سدھار ہے، مجھ پر تیر اغصہ بھڑ کے اس سے پناہ مانگتا ہوں،مجھ پر تیر ا غضب ٹوٹے اس سے تیرے سایہ میں آتا ہوں، مناناہے اس وقت تک منانا ہے جب تک تور اضی نہ ہو، نہ قابو ہے، نہ زور ہے، مگر علي و عظیم اللہ ہی ہے ۔‘‘
یہ چند قطرات ہیں جو اس دن کی موجوں سے محفوظ رہ گئے ہیں ورنہ کون جانتا ہے کہ کیا کیا کہاگیا؟ کہلوایا گیا؟ پانچوںوقت بند ہ و رب میں جب مکالمہ و مناجات کے دروازے کھولے جاتے ہیں، جس افتتاحی کلام سے اس کا آغاز ہوتا ہے، وہ کہا جاتا ہے یا کہلوایا گیا ہے۔
پس سچ وہی ہے جسے کہتا آرہا ہوں کہ منفی قانون ختم ہو چکا تھا طائف کی گھاٹیوں میں ختم ہو چکا تھا اور قطعاً ختم ہو چکا تھا کہ اس کا جو مقصد تھا وہ پورا ہو چکا۔ اندر باہر آگیا، پوری طاقت سے آیا، ہر شکل میں آیا، ہر صورت میں آیا، ذکر بھی دیکھا گیا اور پورے طور پر دیکھا گیا، لے کر بھی جانچا گیا اور جی بھر کے جانچا گیا۔سال دو سال نہیں ایک جگ، ایک قرن سے زیادہ موقعہ دیا گیا، تا کہ ٹھونکنے والے ٹھونک لیں، بجانے والے بجالیں، کَسنے والے کَس لیں، تانے والے تالیں، آزمایش کی کون سی بھٹی تھی جس میں قدرت کے ہاتھوں کا پیدا کیا ہوا یہ زرِ خالص نہیں ڈالا گیا؟ حرارت کا کون سادرجہ ہے جو اس کی غیر معمولی لاہوتی حقیقت کو نہیں پہنچایا گیا؟ جو کچھ کر سکتے تھے سب کچھ کر لیا گیا، اس کے آگے کیاکچھ اور بھی سوچا جا سکتا ہے،جنہیں تم نے مکی زندگی کے ان سالوں میں مسلسل تابڑ توڑ پیہم صدق و دیانت کے اس بے نظیر سرچشمہ کے ساتھ ہوتے ہوئے نہیں دیکھا؟ شہادتیں تام ہوگئیں،گواہیاں پوری ہو چکیں، تجربات مکمل طور پر مہیاہو چکے،مشاہدات اکٹھے ہوچکے، الغرض عالمِ امکان میں جو کچھ ہو سکتا تھا سب ہو گیا، منفی قوانین اپنے سارے حقوق لے کر اپنے حدود کے آخری بالکل آخری نقطہ پر پہنچ کر ختم ہو چکے تھے۔
یقینًا وہی وقت آگیا تھا اور اب نہ آتا تو کب آتا کہ واقعات کے دوسرے رخ کا آغاز ہو؟ پس وہی جس سے ہر چیز الگ کی گئی ، کائنات کا ہر ذرہ جس سے ٹکرایا اور پوری شدت سے ٹکرایا، اتنی شدت سے ٹکرایا کہ صبرو سکون کے پہاڑ سب سے بڑے پہاڑ میں بھی جنبش پیدا ہوئی، انتظار کرو کہ اب اسی کے ساتھ ہر چیز لپٹے، جس سے بھاگے تھے اسی کی طرف سب دوڑیں، جس سے جدا ہوئے اسی سے آکر ملیں ، جس سے سب ٹوٹے اسی سے اب سب جٹیں، جس سے سب پھٹے اسی سے سب چمٹیں، جنہوں نے دردرایا وہی اب اس کو پکاریں اور بے کسی کے ساتھ پکاریں، جس سے سب بھنچے تھے اب اسی کی طرف، ہاں! اسی کی طرف سب کھنچیں، پوری طاقت کے ساتھ کھنچیں، زمین کھنچے، آسمان کھنچے، فلک کھنچے، ملک کھنچیں، جن کھنچیں، انس کھنچے الغرض جو چیزیں کھنچ سکتی ہیں سب کھنچیں اور دیکھو کیا یہی نہیں ہو رہا ہے ؟شاعری نہیں واقعہ ہو رہا ہے، میں نہیں امام بخاری کہہ رہے ہیں:
جو زمین پر چھوڑ ا گیا تھا اور ہر طرف سے چھوڑا گیا تھااسی کے مبارک قدموں سے سب کو جوڑنے کے لیے ملأ اعلیٰ میں جنبش ہوتی ہے۔ سلسلۂ ملکوت کے ارتقائی نقاط کا آخری نقطہ الجبرئیل الامین کو دکھایا گیا کہ وہ پکار رہے ہیں:
’’سن لیا،اللہ نے سن لیا، آپ کے لوگوں نے جو کچھ آپ کو کہا۔‘‘
پھراسی سے جس کو سب نے لوٹا یا تھا خطاب کیا گیا:
’’اور جنہوں نے آپ کا رد کیا اور پھینکا وہ بھی اللہ سے غائب نہ تھے۔‘‘
اس کے بعد جو ہلکا کیا گیا تھا اور جو اپنی سبکی کے دکھ سے چندمنٹ پہلے کراہاتھا ، رویا تھا، دیکھو کہ اس کو وزن بخشا جاتا ہے۔ کیا پتھر کے باٹوں کے برابر کیا گیا؟ پہاڑوں سے تولا گیا؟ ہمالیہ،ارال ، البرز، آلپس کے مساوی ٹھہرایا گیا؟ عمل کا صحیح ردِ عمل کیا ہوتا اگر اسی پر بس کیا جاتا جو سب پر ہلکا تھا؟ جب تک سب پر بھاری نہ کیا جاتاکیسے کہا جاتا ہے کہ عمل کا ردِ عمل ہو گیا؟
جبرئیلِ امین نے عرض کیا:اللہ تعالیٰ نے آپ کے پاس پہاڑوں کو نہیں بلکہ پہاڑوں کے فرشتہ کو بھیجا ہے۔
جس سے سب لیا گیا تھااب اس کو سب دیا جاتا ہے، اور کس ترتیب سے دیا جا تا ہے ، غیب میں بھی ملأ ادنیٰ سے پہلے ملأ اعلیٰ کا وہ قدوسی وجود جو روحانیوں کا سردار ہے اور شاید جو دائرہ ملکوت کا نقطۂ پرکار ہے وہ دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد ملأ ادنیٰ کے فرشتے ملک الجبال کی تسخیر کی بشارت سنائی جاتی ہے اور کیسی تسخیر جبرائیل امین عرض کرتے ہیں:
’’یہ پہاڑ کا فرشتہ ہے آپ جو حکم دیجیے اس کو حکم دیجیے وہ بجا لائے گا۔ ‘‘
پہاڑ کا فرشتہ حوالہ کر دیا گیا جس کے سلام کے جواب میں بازارِ طائف کے چھچھورے تک پتھر پھینکتے تھے ردِ عمل کی پوری قوت کا اندازہ کرو، خود فرماتے ہیں:
’’اس پہاڑ کے فرشتے نے مجھے سلام کیا۔‘‘
سلام عرض کر کے جو مسخر کیا گیا تھا فرمان طلب کرتا ہے :اے محمد(ﷺ)! آپ کو پور ا اختیار ہے۔
کس امر کا اختیار ہے؟اُف جنہوں نے سنگریزوں سے مارا تھاپہاڑ کا فرشتہ اجازت طلب کرتا ہے کیا ان پر، طائف کے ان پتھر مارنے والوں پر، ان دونوں پہاڑوں کو جن سے طائف محصور ہے الٹ دوں؟
جس کو ذرائع و وسائل کی قلت کا گلہ تھا اس کے سازو سامان کی فراوانی کا اندازہ کرو! یہ بخاری میں کہا گیا ہے، جس کے گھٹنے توڑے گئے، ٹخنے چورے گئے، اب اس کے قابو میں کیا نہیں ہے؟ اور جو اختیار دیا گیاکیا وہ پھر چھینا گیا؟اس کے بعد اگر میں کبھی کہتا ہوں کہ احد میں دانت ٹوٹے نہیں بلکہ تڑوائے گئے، چہرۂ مبارک زخمی ہوا نہیں بلکہ زخمی کرایا گیا، خندق میں پیٹ پر پتھر بندھے نہیں بلکہ باندھے گئے، الغرض اس کے بعد جو کچھ گزرا میں کیا غلط کہتا ہوں؟ جب لوگوں سے کہتا ہوں کہ گزرے نہیں بلکہ گزارے گئے، مہینوں گھر میں آگ جلی نہیں بلکہ نہ جلوائی گئی، کھانا پکا نہیں بلکہ نہ پکوایا گیا۔
’’مجھے مسکین ہی زندہ رکھ! مجھے مسکین ہی مار! اور مسکینوں ہی کے ساتھ اٹھا !‘‘
کیا اس آرزو کی ہر کلیجہ میں قوت ہے؟ کس کا جگر ہے جو یہ کہہ سکتا ہے ؟لیکن جن کو سب کچھ مل جاتا ہے اپنے لیے نہیں غیروں کے لیے سب کچھ کرتے ہیں۔ نعمت والے تو اپنی نعمتوں سے خوش ہیں، لیکن مصیبت زدوں کی تسلی تو صرف اسی کی ذات سے ہو سکتی ہے جس کے پاس سب کچھ ہو سکتا تھا، لیکن صرف اسی لیے کہ جن کے پاس کچھ نہیں ہے ان کے آنسو تھمیں اس نے اپنے پاس کچھ نہیں رکھا۔ ’’موطا امام مالک‘‘ کی اس روایت کا کیا مطلب ہے کہ ’’میرے مصائب ہر مسلمان کی تعزیت کریں گے۔‘‘
سوچنا چاہیے کہ مصیبت کی کون سی ایسی قسم ہے جو اس وجودِ اطہر پر نہ گزری جو دنیا والوں کے لیے اُسوہ اورنمونہ بنا کر بھیجا