کچھ رس بھری باتیں اردو زبان کی
ایک ماہر اور مشّاق صحافی دوست نے پوچھا ہے: ’’رس بھری زبان کیسے لکھی جائے؟‘‘غالباًوہ جاننا چاہتے ہیں کہ تحریر میں زبان کا رس کیسے آئے؟ ورنہ ’رس بھری‘ توایک نہایت خوش ذائقہ اور خوش رنگ پھل کا نام ہے۔ زرد رنگ کا یہ رسیلا پھل سبز پتیوں کے غلاف میں لپٹا ہوتا ہے۔ یہی پھل انگلستان پہنچا تو وہاں اپنا نام “Raspberry” رکھ لیا۔ زبان تو ’رس بھری‘ کا رس چاٹ سکتی ہے یا اس کے مزے لوٹ سکتی ہے۔ لکھنے کے لیے رائج الوقت اوزار ہی استعمال کرنے پڑیں گے۔
ہماری قومی زبان بھی رسیلی زبان ہے۔اس میں بڑا رس ہے۔ مگر قومی زبان پر قوم کا بس نہیں۔ خود قومی زبان بھی بے بس ہوکر رہ گئی ہے۔ تعلیم اور کارِ سرکار کی زبان فرنگی زبان ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ بس اب یہی زبان ان کے بس میں ہے۔ گو کہ فرنگی زبان پر بھی پوری طرح بس نہیں چلتا، اُلٹا اسی نے لوگوں کو بے بس کر رکھا ہے۔ پر لوگوں کو سمجھا دیا گیا ہے کہ اسی زبان کو لکھنا، پڑھنا اور بولنا ہمارے لیے بس ہے۔ بقولِ یوسفیؔ جس پر بس ہے اُس میں رس نہیں، اور جس میں رس ہے اُس پر بس نہیں۔ فرنگی زبان تو ہمارے لیے ’بِس کی گانٹھ‘ بن کر رہ گئی ہے ۔گانٹھ بمعنی پوٹلی۔ بِس (’ب‘ پر زیر کے ساتھ) زہر کو کہتے ہیں۔ ایک دن مولانا حالیؔ اپنے ناصح کو نصیحت کرتے ہوئے دیکھے گئے تھے:
کی نصیحت بُری طرح ناصح
اور اِک بِس ملا دیا بِس میں
ناصح کو پہچانا تو لگے ہاتھوں کچھ انسانوں کی پہچان ہمیں بھی بتاتے گئے:
جانور، آدمی، فرشتہ، خدا
آدمی کی ہیں سیکڑوں قِسمیں
علاوہ ازیں جو لوگ (زبان وغیرہ کے معاملے میں) اپنا بُرا بھلا نہیں دیکھ پاتے، اُن کی آنکھ کو بھی مولانا پیڑ پودوں کی آنکھ کہہ گئے:
ہو نہ بِینا تو فرق پھر کیا ہے
چشمِ انسان و چشمِ نرگس میں
چشمِ بینا رکھنے والے جب اردو لکھتے ہیں تو اردو ہی کے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ اس سے تحریر میں زبان کا رس آجاتا ہے، اور پڑھنے والے کو چَس آجاتا ہے۔ آخر یہ اُردو لکھنے والے ہی تو ہیں جو اردو کے مانوس الفاظ کو بھی اُردو سے بے دخل کرکے اِسے ’بے رس‘ کیے دے رہے ہیں۔ اجنبی زبان سے اُردو زبان کا رس کیسے ٹپکے؟ پچھلے دنوں ایک خاتون صحافی نے ایک تقریب کی رُوداد رقم کرتے ہوئے اُردو پر انگریزی کا رَدّا یوںرکھا: ’’میرون کلر کا ٹیبل کور آئی کیچنگ لگ رہا تھا‘‘۔ ذرا اس فقرے کا موازنہ اس جملے سے کیجیے: ’’کشمشی رنگ کا میز پوش آنکھوں کو پُرکشش محسوس ہورہا تھا‘‘۔ شاید آپ کچھ فرق محسوس کرسکیں۔
جب ہم اردو الفاظ استعمال کرنے کا ’رواج‘ ختم کرکے انگریزی الفاظ کی بھرمار کا ’فیشن‘ اپنائیں گے تو اُردو سے شکایت کیسی؟ اُردو صحافت سے ’بدعنوانی، انتخابات، سودے بازی اور ایندھن‘ وغیرہ جیسے متعدد مانوس الفاظ جان بوجھ کر ’بے رواج‘ کردیے گئے ہیں، مگر ’کرپشن، الیکشن، ڈیل اور فیول‘ وغیرہ سمیت بہت سے اجنبی الفاظ کو پیہم تکرار سے اتنا مانوس کردیاگیا ہے کہ اب ہمارے ماہرینِ ابلاغیات انھیں ’آئوٹ آف فیشن‘ کرنے کے متعلق سوچنے کے قابل بھی نہیں رہے۔آپ کسی شخص کو سجدے کی حالت میں برسوں نہیں، مہینوں نہیں، صرف ہفتوں پڑے رہنے پر مجبور کردیجیے۔ اس کے پٹھے اکڑ جائیں گے اور وہ اُٹھنے کے قابل نہیں رہے گا۔ یہاں تو صدی بیت گئی ہے۔
ذریعۂ تعلیم اورزبانِ سرکار سات سمندر پار کی زبان کو بنا دینے سے تعلیمی، سرکاری اور کاروباری تمام اداروں کا ناتا قوم سے ٹوٹ گیا ہے۔ سب کے سب ایسے الگ تھلگ قلعوں میں بند ہوکر بیٹھ گئے ہیں جہاں عوام کی پہنچ نہیں۔ وہاں جو کچھ بھی ہوتا ہے، قوم کی سمجھ میں نہیں آتا۔ قوم کی سمجھ میں تو قومی زبان آسکتی ہے یا وہ پاکستانی زبانیں جو پاکستان کے مختلف خطوں میں بولی جاتی ہیں۔ صرف ووٹ مانگنے کے لیے قومی زبان یا کوئی پاکستانی زبان استعمال کی جاتی ہے، کیوں کہ فرنگی زبان میں ووٹ مانگنے آئیں گے تو لوگ قہقہے لگائیں گے۔ اس کے برعکس اگر کوئی شخص صرف اردو، سندھی، بلوچی، پشتو، پنجابی یا پاکستان کی کسی اور زبان میں لکھنے پڑھنے کا ماہر ہو تو وہ سرکارکے دفتروں میں ’تعلیم یافتہ‘ نہیں قرار پائے گا، جاہل سمجھا جائے گا۔ جھاڑو پونچھے پر لگا دیا جائے گا مگر اُسے کارِ سرکار کی انجام دہی کے لیے کسی بڑے عہدے کا ’اہل‘ نہیں گردانا جائے گا، کیوں کہ لاکھ اُس کا مطالعہ وسیع ہواور عقل و دانش بسیط ہو، مگر وہ فرنگی آقاؤں کی زبان نہیں جانتا۔ جاہل کہیں کا۔
بڑی مضحکہ خیز صورتیں پیش آتی ہیں جب لوگ اپنے آپ کو تعلیم یافتہ باور کرانے کے لیے انگریزی الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ ہمارے ایک دیرینہ دوست عربی مدارس کے تعلیم یافتہ اور بے روزگار تھے۔ اُنھیں دنوں ہمارے ایک اور دوست پھلوں کا رس کاغذ کے اہرام نما ڈبوں میں سربند کرنے والے ایک کارخانے کی طرف سے’’فروشندۂ مُجاز‘‘ مقرر ہوگئے۔ ’فروشندہ‘ کہتے ہیں فروخت کرنے والے کو۔ یہ بھی بتاتے چلیں کہ مَجاز کے میم پر اگر زبر ہو تو اس کا مطلب ہے: ’حقیقت کے برعکس، غیر حقیقی یا فرضی‘۔ لیکن اگر مُجاز کے میم پر پیش ہو تو اس کے معنی ہوتے ہیں ’جسے اجازت دی گئی یا جسے اختیار دیا گیا‘ (’افسرِ مُجاز‘ کے میم پر بھی پیش ہے) سو، ہم نے اپنے دوسرے دوست سے درخواست کی کہ بے روزگار حضرت کو اپنے کاروباری ادارے میں ملازم رکھ لیجیے۔ وہ مان گئے۔ مولانا ملازم ہوگئے۔ وہاں جابجا، بلکہ جا و بے جا انگریزی ٹھونکنے کا رواج تھا۔ ابھی ملازمت کے ابتدائی دن تھے کہ مولانا سخت چِلچِلاتی گرمیوں میں، جب ٹھنڈے مشروبات کی فروخت اپنے عروج پر ہوتی ہے، دو دِن کی چھٹی لے کر گاؤں چلے گئے۔ پندرہ دنوں تک واپس نہیں آئے۔ ادارے نے اپنی طرف سے تو اُن کی ملازمت پر فاتحہ پڑھ ہی دی تھی، اب ہمارے وسیلے سے اُن کی ذات کو ایصالِ ثواب بھی کِیا چاہتے تھے۔ مگر جب سولہویں دِن مولانا اپنی انتہائی گھنی ڈاڑھی اور مسکین صورت لیے طلوع ہوگئے، تو آجرِ محترم نے اُن کے بجائے ہمیں اپنے دفتر میں طلب کرلیا۔ کہنے لگے:
’’بھئی! میری تو مارے ادب کے ہمت نہیں پڑتی۔ آپ ہی مولانا سے پوچھیے کہ کہاں غائب تھے اور آیندہ کیا ارادہ ہے؟‘‘
چناں چہ مولانا وہیں بُلوا لیے گئے۔
ہم نے بعد سلام کے اُن کی خیریت پوچھی: ’’حضرت! آپ دودِن کی رُخصت پر تشریف لے گئے تھے۔ پندرہ روز تک بلااطلاع غیر حاضر رہے، خیریت تو تھی؟‘‘
مختصراً فرمایا: ’’نہیں‘‘۔
ہم نے گھبراکر پوچھا: ’’کیا ہوگیا تھا؟‘‘
افسردہ ہوکر بتایا: ’’والد صاحب قبلہ بیمار ہوگئے تھے‘‘۔
پوچھا: ’’کیا بیماری تھی؟‘‘
سوال سُنتے ہی بھڑک اُٹھے۔ قدرے بلندآواز اور شاکی لہجے میں فرمایا: ’’منع کیا تھا اُن کو کہ آپ ’ریسٹ رُوم‘ فرمائیے۔ کوئی کام ہو تو مجھے بتائیے۔ پھر بھی بھری دوپہر میں باہر نکل گئے۔ نتیجہ یہ کہ ’سَن سیٹ‘ ہوگیا‘‘۔
ہمارے منہ سے بے اختیار نکلا: ’’اِنَّا لِلّٰہِ‘‘ اُنھوں نے ہمیں گھورکردیکھا تو ہم نے احتیاطاً پوچھ لیا:’’آفتابِ حیات غروب ہوگیا؟‘‘
بلبلا کر تقریباً ڈانٹتے ہوئے بولے: ’’ارے نہیں … خدانخواستہ…آپ کیسی بدفال منہ سے نکا ل رہے ہیں؟…اُن کو وہ ہوگیا تھا… کیا نام کہ… وہ…‘‘
اس مرحلے پرآجرِ محترم نے ہمارے کان میں اپنے منہ کی گرم گرم بھاپ چھوڑتے ہوئے کانا پھوسی کی: ’’شاید سَن اِسٹروک کہنا چاہتے ہیں‘‘۔
اب ہم بھی بھڑک کر بولے:’’ارے تو یوں کہیے ناکہ لُولگ گئی تھی۔ کچے آم کا رس نکالتے اور شربت بنابناکر پلاتے رہتے، بالکل ٹھیک ہوجاتے‘‘۔
وہ بھی اُتنا ہی بھڑک کر بولے: ’’تو اِتنے دِنوں تک میں اورکیا کرتا رہا؟‘‘