رنگ اور روپ سے جو بالا ہے
رنگ اور روپ سے جو بالا ہے
کس قیامت کے نقش والا ہے
چاپ ابھری ہے دل کے اندر سے
کوئی پلکوں پہ آنے والا ہے
زندگی ہے لہو کا اک چھینٹا
عمر زخموں کی دیپ مالا ہے
تول سکتا ہے کون خوشبو کو
پھر بھی ہم نے یہ روگ پالا ہے
کتنا آباد ہے گھنا جنگل
کیسا سنسان یہ شوالا ہے
دیکھ اس تیری چاندنی شب نے
کتنے تاروں کو روند ڈالا ہے
کپکپانے لگے ہیں لب اس کے
جانے کیا بات کرنے والا ہے