رکھا ہے بزم میں اس نے چراغ کر کے مجھے

رکھا ہے بزم میں اس نے چراغ کر کے مجھے
ابھی تو سننا ہے افسانے رات بھر کے مجھے


یہ بات تو مرے خواب و خیال میں بھی نہ تھی
ستائیں گے در و دیوار میرے گھر کے مجھے


میں چاہتا تھا کسی پیڑ کا گھنا سایہ
دعائیں دھوپ نے بھیجی ہیں صحن بھر کے مجھے


وہ میرا ہاتھ تو چھوڑیں کہ میں قدم موڑوں
بلا رہے ہیں نئے راستے سفر کے مجھے


چراغ روئے ہے جگ مگ کیا تھا جن کا نصیب
وہ لوگ بھول گئے طاقچے میں دھر کے مجھے


میں اپنے آپ میں وحشت کا اک تماشا تھا
ہوائیں پھول بناتی رہیں کتر کے مجھے


تمام عظمتیں مشکوک ہو گئیں جیسے
وہ اتھلا پن ملا گہرائی میں اتر کے مجھے


دلوں کے بیچ نہ دیوار ہے نہ سرحد ہے
دکھائی دیتے ہیں سب فاصلے نظر کے مجھے