رہ گزر

پھر وہی بڑھتے ہوئے رکتے ہوئے قدموں کی چاپ
پھر وہی سہمی ہوئی سمٹی ہوئی سرگوشیاں
پھر وہی بہکی ہوئی مہکی ہوئی سی آہٹیں
پھر وہی گاتی سی لہراتی سی کچھ مدہوشیاں


زندگی طوفان تھی سیلاب تھی بھونچال تھی
وقت پھر بھی کروٹوں پر کروٹیں لیتا رہا
قافلے اس راہ پر آتے رہے جاتے رہے
راہ بر سب کو مسافت کا صلہ دیتا رہا


وہ تبسم جس کو روتے ہیں کئی اجڑے سہاگ
بن رہا ہے اک لچکتا خار اپنے پاؤں میں
وہ نظر جو کل تلک ہر جسم کو ڈستی رہی
آج سستانے لگی ہے مصلحت کی چھاؤں میں


کتنی امیدوں کے مدفن اس کے ہاتھوں بن چکے
کتنے ارمانوں کے لاشے اس نے خود کفنائے ہیں
آہ یہ مقتل کہ جس کے پاسبانی کے لیے!
کتنے مستقبل فنا کے دوش پر لہرائے ہیں


کلفتوں سے تنگ آ کر بے خودی کی کھوج میں
قافلے اس راہ پر آتے رہیں جاتے رہیں
راہ بر سب کو مسافت کا صلہ دیتا رہے
راہرو اپنے تجسس کا صلہ پاتے رہیں