رہے قائم مرا کلچر مرا ایماں زباں میری
رہے قائم مرا کلچر مرا ایماں زباں میری
نہ ہو گم قلقل مینائے مغرب میں اذاں میری
محبت میں بھلا کیا کام آتیں دھمکیاں میری
حسینوں نے پکڑ کر توڑ دی ہیں پسلیاں میری
مزا جب ہے کہ اک ہی قبر میں ہوں دفن ہم دونوں
وہ کیا مرنا وہاں تیری لحد ہو اور یہاں میری
کچن میں توڑ کر انڈے ستم توڑا ہے یہ کہہ کر
سفیدی آپ کی ہے اور ساری زردیاں میری
سنا ہے اک بلائے ناگہاں راکٹ میں اترے گی
نظر اس واسطے رہتی ہے سوئے آسماں میری
کہا گوری نے کرسی پر ادب سے بیٹھنا سیکھو
نگوڑے توڑ دیں دو دن میں ساری کرسیاں میری
لفافے میں چھچھوندر بند کرکے اب میں بھیجوں گا
پڑھا کرتا ہے چٹھی کھول کر چٹھی رساں میری
کہا بیوی نے شوہر سے کہ بچوں کی خبر رکھنا
چلو دفتر چلی میں مجھ کو دینا جوتیاں میری
بہار آنے پہ بلبل دیکھنا جشن بہاراں میں
قفس میں ناچتی ہوں گی قفس کی تتلیاں میری
مری موج سخن بلبلؔ کہیں دریا نہ بن جائے
بہت روکا پہ رکتی ہی نہیں طبع رواں میری