رہے دریائے سخن یوں ہی رواں میرے بعد
رہے دریائے سخن یوں ہی رواں میرے بعد
بانجھ ہو جائے نہ غالب کی زباں میرے بعد
کون دے گا انہیں خوشبو کا جہاں میرے بعد
کس سے لپٹیں گے یہ نازک بدناں میرے بعد
کو بہ کو پھرتی ہے اب چاروں طرف آوارہ
بوئے گل کو نہ ملی جائے اماں میرے بعد
لاکھ میں ننگ سخن ہوں پہ یقیں ہے مجھ کو
لوگ ڈھونڈیں گے مرا طرز بیاں میرے بعد
چھوڑ کر جاؤں گا میں گھر میں اجالے کا ثبوت
کام آئے گا یہ طاقوں کا دھواں میرے بعد
یار سب چل دئے بازار ہوس کی جانب
ہو گئی راہ جنوں کم گزراں میرے بعد
میں کہ خاتم بھی ہوں خود اپنی طبیعت کا ضیاؔ
قط ہوا سلسلۂ آہ و فغاں میرے بعد