رہ جائے نہ شائبہ خودی کا
رہ جائے نہ شائبہ خودی کا
مقصود یہی ہے بندگی کا
اک نالۂ بے صدا تھا جس نے
پیغام دیا ہمیں خوشی کا
حیرانیٔ چشم دل بڑھا دی
اللہ رے ستم یہ آگہی کا
رسوا تھی چمن میں نکہت گل
انجام یہ تھا شگفتگی کا
اے صاحب ہوش رفتہ رفتہ
آئے گا شعور سر خوشی کا
کیا شے ہے یہ میکدہ کہ جس میں
عالم ہے تمام تشنگی کا
اے نالۂ عندلیب بس کر
دل ٹوٹ گیا کلی کلی کا