رہ خزاں میں تلاش بہار کرتے رہے
رہ خزاں میں تلاش بہار کرتے رہے
وہ ایک طرفہ سہی تم سے پیار کرتے رہے
ہے کیا تماشا ادھر رنجشیں ہی بڑھتی رہیں
تعلقات ہمیں استوار کرتے رہے
گزر گئی جو گھڑی لوٹ کر نہ آئی کبھی
تلاش شام و سحر بار بار کرتے رہے
تمہاری چاہ میں جتنے بھی زخم ہم کو ملے
محبتوں میں ہم ان کا شمار کرتے رہے
تری انا پہ ہمیں اختیار ہی کب تھا
تمام عمر ترا انتظار کرتے رہے
عدیلؔ لوگ گھروں کو سجائے بیٹھے ہیں
فروغ حسن فقط برگ و بار کرتے رہے